نظیر اکبر آبادی:::::: نہ مَیں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہُوں ::::::Nazeer Akbarabadi

طارق شاہ

محفلین


غزل
نہ مَیں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہُوں
کوئی خوب رَو لے تو ہاں بیچتا ہُوں

وہ مَے جس کو سب بیچتے ہیں چُھپا کر
میں اُس مَے کو یارو ! عیاں بیچتا ہُوں

یہ دِل، جس کو کہتے ہیں عرشِ الٰہی
سو اِس دِل کو یارو! میں یاں بیچتا ہُوں

ذرا میری ہّمت تو دیکھو عَزِیزو !
کہاں کی ہے جِنس اور کہاں بیچتا ہُوں

لیے ہاتھ پر دِل کو پِھرتا ہُوں یارو !
کوئی مول لیوے، تو ہاں بیچتا ہُوں

وہ کہتا ہے جی کوئی بیچے تو ہم لیں
تو کہتا ہُوں لو ہاں مِیاں بیچتا ہُوں

میں ایک اپنے یوسف کی خاطر عَزِیزو !
یہ ہستی کا سب کارواں بیچتا ہُوں

جو پُورا خرِیدار پاؤں تو یارو
میں یہ سب زمین و زماں بیچتا ہُوں

زمِیں آسماں عرش و کُرسی بھی کیا ہے
کوئی لے، تو میں لا مکاں بیچتا ہُوں

جسے مول لینا ہو، لے لے خوشی سے !
میں اِس وقت، دونوں جہاں بیچتا ہُوں

بکی جِنس، خالی دُکاں رہ گئی ہے !
سو اب اِس دُکاں کو بھی، ہاں بیچتا ہُوں

محبّت کے بازار میں، اے نظیرؔ اب
میں عاجِز غریب اپنی جاں بیچتا ہُوں

نظؔیر اکبر آبادی
 
آخری تدوین:
Top