ناصر کاظمی :::::سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی ::::::Nasir Kazmi

طارق شاہ

محفلین


غزل
سُناتا ہے کوئی بُھولی کہانی
مہکتے مِیٹھے دریاؤں کا پانی

یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سُنا ہے میں نے لوگوں‌کی زبانی

یہاں اِک شہر تھا ،شہرِ نگاراں !
نہ چھوڑی وقت نے اُس کی نشانی


مَیں وہ دِل ہُوں دبِستانِ الَم کا
جسے رَوئے گی صدیوں شادمانی

تصوّر نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خِرَد کہتی ہے جس کو لا مکانی

خیالوں ہی میں‌اکثر بیٹھے بیٹھے
بَسا لیتا ہُوں اِک دُنیا سُہانی

ہجوُمِ نشّۂ فِکرِ سُخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی

بتا، اے ظُلمتِ صحرائے اِمکاں !
کہاں ہوگا مِرے خوابوں‌کا ثانی

اندھیری شام کے پردوں میں‌ چُھپ کر
کِسے روتی ہے چشموں کی روانی

کِرن پریاں اُترتی ہیں کہاں سے ؟
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی

پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اُڑے جاتے ہیں اَوراقِ خزانی

نئی دنیا کے ہنگاموں میں‌ ناصؔر
دبی جاتی ہیں آوازیں پُرانی


ناصؔر کاظمی

 
آخری تدوین:
Top