نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    ولی دکنی طاقِ ابرو ترا حرم دستا ۔ ولی دکنی

    طاقِ ابرو ترا حرم دستا محرم اس کا عرب عجم دستا خط ترا سر نوشتِ عاشق میں حرفِ تقدیر کا رقم دستا خط ترا آئینہ سکندر ہے ہر دو عالم منیں عدم دستا لوحِ محفوظ ہے ترا رخسار زلف اس پر مگر قلم دستا تجھ زنخداں کے چاہ کنعاں میں یوسفِ مصر دم بہ دم دستا خط ترا ہے ضرور لشکرِ حسن کاکل اُس کے اُپر علم دستا...
  2. فرخ منظور

    میر حسن رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دل کا ۔ میر حسن

    رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دل کا کھویا مری آنکھوں نے آرام مرے دل کا آغازِ محبت میں دیکھا تو یہ کچھ دیکھا کیا جانیے کیا ہو گا انجام مرے دل کا جس دن سے ہوا پیدا اُس دن سے ہوا شیدا دیوانہ و سودائی ہے نام مرے دل کا طوفان ہے زلفوں پر بہتان ہے کاکل پر ہے رشتہ اُلفت ہی پر دام مرے دل کا جب تک میں...
  3. فرخ منظور

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں ۔ نظیر صدیقی

    ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں کس کس کے در پہ مانگیں دعا تیرے شہر میں مجرم ہیں سارے اہلِ وفا تیرے شہر میں کیا خوب ہے وفا کا صلہ تیرے شہر میں اہلِ ہوس کے نام سے ہیں روشناس خلق ملتی ہے جن کو دادِ وفا تیرے شہر میں رکھتے ہیں لوگ تہمتیں اپنے نصیب پر کرتے ہیں یوں بھی تیرا گلا تیرے شہر میں...
  4. فرخ منظور

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی ۔ نظیر صدیقی

    خود فریبی نے بے شک سہارا دیا اور طبیعت بظاہر بہلتی رہی ایک کانٹا سا دل میں کھٹکتا رہا ایک حسرت سی دل کو مسلتی رہی اپنے غم کو ہمیشہ بھلایا کئے کثرتِ کار میں سیرِ بازار میں الغرض کسمپرسی کے عالم میں بھی زندہ رہنے کی صورت نکلتی رہی عقل کی برتری دل نے مانی تو کیا اس نے چاہا کبھی عقل کا مشورہ...
  5. فرخ منظور

    تبسم افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے ۔ صوفی تبسم

    افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ ان تلخیوں میں زہر ملاتےچلے گئے اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز ہم زندگی کے ناز اٹھاتےچلے گئے ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر یوں بھی کسی کا راز چھپاتےچلے گئے میں جتنا ان کی یاد بھلاتا چلا...
  6. فرخ منظور

    تبسم سنے قہقہے تو سن لو یہ فغانِ چشمِ تر بھی ۔ صوفی تبسم

    سنے قہقہے تو سن لو یہ فغانِ چشمِ تر بھی کہ ہے داستاں میں شامل یہ حدیثِ مختصر بھی جو وہ دن گزر گیا تھا تو یہ رات بھی کٹے گی کبھی شام آ گئی تھی کبھی آئے گی سحر بھی یہ عجیب رہ روی ہے کہ الجھ گئی ہیں راہیں مجھے ڈر ہے کھو نہ جائے کہیں تیری رہ گزر بھی ترے حسن سے شگفتہ ہوئیں مضمحل نگاہیں جو سنور گئے...
  7. فرخ منظور

    تبسم پھول تو ہیں پھول کانٹوں سے سنور جائے بہار ۔ صوفی تبسم

    پھول تو ہیں پھول کانٹوں سے سنور جائے بہار اب کے آئے تو ہر اِک شے میں اتر جائے بہار اہتمامَ ہاو ہُو کر پر کہیں ایسا نہ ہو صحنِ گلشن سے دبے پاؤں گزر جائے بہار گُل نہیں ہنستے تو کانٹوں سے لپٹ کر روئیے کچھ تو ہو رنگَ چمن، کچھ تو نکھر جائے بہار ہر روش پر اِک نئے دورِ خزاں کی الجھنیں اب تمہیں کہہ...
  8. فرخ منظور

    تبسم بند ہو جائے مری آنکھ اگر ۔ صوفی تبسم

    بند ہو جائے مری آنکھ اگر بند ہو جائے مری آنکھ اگر اس دریچے کو کھلا رہنے دو یہ دریچہ ہے افق آئینہ اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر اس دریچے کو کھلا رہنے دو اس دریچے سے ابھرتی دیکھی چاند کی شام ستاروں کی سحر اِس دریچے کو کھلا رہنے دو اس دریچے سے کیے ہیں میں نے کئی بے چشم نظارے کئی بے راہ سفر اِس...
  9. فرخ منظور

    تبسم دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی ۔ صوفی تبسم

    دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی زندگی، زندگی نہیں ہوتی جان پر کھیلتے ہیں اہلِ وفا عاشقی دل لگی نہیں ہوتی کیا کرو گے کسی کی دل داری تم سے تو دل بری نہیں ہوتی موت کی دھمکیاں نہ دو ہم کو موت کیا زندگی نہیں ہوتی؟ غور سے دیکھتا ہوں جب تم کو میری ہستی مری نہیں ہوتی عشق میں ہوشیاریاں بھی ہوتی ہیں محض...
  10. فرخ منظور

    تبسم وہ دامنِ ستم یونہی گردانتے رہے ۔ صوفی تبسم

    وہ دامنِ ستم یونہی گردانتے رہے ہم آپ اپنے دل کا کہا مانتے رہے کوئی نہ مل سکا رہِ ہستی میں آشنا ہم رہروؤں کی صورتیں پہچانتے رہے تم نے غبارِ راہ سمجھ کر اڑا دیا ہم یونہی خاکِ کوئے وفا چھانتے رہے ہم سے ہے بڑھ کے کون جہاں میں خدا پرست ہم لوگ تو صنم کو خدا مانتے رہے کچھ اشک ہائے گرم تھے، کچھ خندہ...
  11. فرخ منظور

    تبسم نہ کر سکیں انھیں برسوں کی آندھیاں مدّھم ۔ صوفی تبسم

    نہ کر سکیں انھیں برسوں کی آندھیاں مدّھم یہ کون چھوڑ گیا لوحِ دل پہ نقشِ قدم ہزار دورِ خزاں سے گزر کے آئے ہیں عجیب رنگ سے گزرا بہار کا موسم ابھی ہے چاند ستاروں کی روشنی مدّھم ابھی ہے شام کے چہرے پہ پَرتوِ شبِ غم گزرنا ہو گیا دشوار رہگزاروں سے یہ کس کے پاؤں کی آہٹ کو سن رہے ہیں ہم ستارے بن کے...
  12. فرخ منظور

    تبسم لے کے چلاہوں تابِ نظارہ، نظر کے ساتھ ۔ صوفی تبسم

    لے کے چلاہوں تابِ نظارہ، نظر کے ساتھ کچھ زادِ رہ بھی چاہیے عزمِ سفر کے ساتھ آزاد تو ہوئے ہیں اسیرانِ ہم صفیر لیکن قفس کے تنکے لیے بال و پر کے ساتھ ہر مرحلے پہ اِک نئی منزل ہے سامنے چلتا ہوں ہر قدم پہ نئے راہبر کے ساتھ حسرت سے آنکھ دیکھنے والے نے پھیر لی نظریں لپٹ کے رہ گئیں دیوار و در کے ساتھ...
  13. فرخ منظور

    تبسم کچھ اور گمرہیِ دل کا راز کیا ہو گا ۔ صوفی تبسم

    کچھ اور گمرہیِ دل کا راز کیا ہو گا اِک اجنبی تھا کہیں رہ میں کھو گیا ہو گا وہ جن کی رات تمھارے ہی دم سے روشن تھی جو تم وہاں سے گئے ہو گے کیا ہوا ہو گا اسی خیال میں راتیں اجڑ گئیں اپنی کوئی ہماری بھی حالت کو دیکھتا ہو گا تمھارے دل میں کہاں میری یاد کا پرتو وہ ایک ہلکا سا بادل تھا چھٹ گیا ہو گا...
  14. فرخ منظور

    تبسم نرالا ہے فقیروں کا مقامِ کج کلاہی بھی ۔ صوفی تبسم

    نرالا ہے فقیروں کا مقامِ کج کلاہی بھی کہ اس کی آبرو سے اوج پر ہے تاجِ شاہی بھی عجب کیا خودہی آنکھوں میں سمٹ آئیں ترے جلوے عجب کیا کام آجائے یہ میری کم نگاہی بھی یہ آئینہ حریفِ تابِ جلوہ ہو نہیں سکتا مجھی پر چھوڑ دو یہ شیوۂ حیرت نگاہی بھی وفاداری بشرطِ استواری کی کسے فرصت غنیمت ہے کسی کی یہ...
  15. فرخ منظور

    تبسم ہستیِ بشر کیا ہے اِک نظر کا دھوکا ہے ۔ صوفی تبسم

    ہستیِ بشر کیا ہے اِک نظر کا دھوکا ہے آدمی کی صورت میں آدمی کا سایہ ہے غایتِ نظر کیا ہے، جلوہ ہے کہ پردہ ہے آنکھ سے جو دیکھا ہے، دل اسی کو ترسا ہے صرصرِ حوادث سے مٹ گئے نشاں کیا کیا اس جہانِ صحرا میں تیرا نقشِ پا کیا ہے تم مجھے بھلا دو گے، میں تمھیں بھلا دوں گا ساری بات دل کی ہے، دل کا کیا...
  16. فرخ منظور

    تبسم تمھی کہو کہاں لے جائے کوئی جنسِ ہنر ۔ صوفی تبسم

    تمھی کہو کہاں لے جائے کوئی جنسِ ہنر نہ تجھ میں ذوقِ نظر ہے نہ مجھ میں ذوقِ نظر بھٹک کے رہ گئی منزل پلٹ گئے راہی نہ جانے ختم کہاں ہو گا رہبروں کا سفر ہوا کا ہلکا سا جھونکا ہو، کانپ جاتے ہیں یہ سوکھے پتے ہیں، ان کھنکھناہٹوں سے نہ ڈر کبھی تو آ کے زمیں کے نشیب زار بھی دیکھ کبھی تو اپنے فلک کی...
  17. فرخ منظور

    تبسم نہ روبرو کوئی دل بر نہ دل رُبا منظر ۔ صوفی تبسم

    نہ روبرو کوئی دل بر نہ دل رُبا منظر تو پھر یہ کیسے دریچے، یہ کیسے بام و در بہک نہ جائے نگہ، ڈگمگا نہ جائیں قدم رہِ وفا ہے، یہاں سے ذرا سنبھل کے گزر ملیں گے جا کے، خدا جانے کِس مقام پہ دل ابھی تو اُن کی نظر سے نہیں ملی ہے نظر ابھی تو دور بہت ہے تجلیِ رخِ دوست ابھی تو قدموں سے ابھرا ہے، دامنوں...
  18. فرخ منظور

    تبسم مسافرانِ محبت کی داستاں ہے عجیب ۔ صوفی تبسم

    مسافرانِ محبت کی داستاں ہے عجیب جو سو گئی کہیں منزل تو جاگ اٹھے ہیں نصیب نہ پوچھ مرحلۂ شوق دور ہے کہ قریب! جہاں ہو دشتِ تمنّا وہیں دیارِ حبیب دعا نہ مانگ کہ ہو آرزو قبول تری دعا یہ مانگ کوئی آرزو ہو تجھ کو نصیب نہ جانے زورِ خطابت سے تھک گیا ہے وہ نہ جانے عجزِ ندامت سے چُپ ہوا ہے خطیب میں خود...
  19. فرخ منظور

    تبسم بیانِ اہلِ محبت بجز اشارہ نہیں ۔ صوفی تبسم

    بیانِ اہلِ محبت بجز اشارہ نہیں خموشیوں کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ادھر ہی لوٹ کے آئے گی پھر تری کشتی یہ ایک موجۂ گرداب ہے کنارہ نہیں یہ کہہ کے لوٹ گئی صحنِ گُل سے فصلِ بہار کہ چشمِ اہلِ چمن در خورِ نظارہ نہیں بھٹک رہا ہے کہاں تُو فضائے گردوں میں جہانِ خاک میں کیا ایک بھی ستارہ نہیں؟ ہزار بار...
  20. فرخ منظور

    تبسم زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ! ۔ صوفی تبسم

    زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ! پکار اٹھی ہے میری بے زبانی دیکھتے جاؤ! کہاں جاتے ہو، الفت کا فسانہ چھیڑ کر ٹھہرو! پہنچتی ہے کہاں اب یہ کہانی دیکھتے جاؤ! تری ظالم محبت نے جسے بدنام کر ڈالا اُسی مظلوم کی رسوا جوانی دیکھتے جاؤ! سناتا ہے کوئی محرومیوں کی داستاں سُن لو! اجڑتی ہے کسی کی...
Top