تبسم نہ کر سکیں انھیں برسوں کی آندھیاں مدّھم ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
نہ کر سکیں انھیں برسوں کی آندھیاں مدّھم
یہ کون چھوڑ گیا لوحِ دل پہ نقشِ قدم

ہزار دورِ خزاں سے گزر کے آئے ہیں
عجیب رنگ سے گزرا بہار کا موسم

ابھی ہے چاند ستاروں کی روشنی مدّھم
ابھی ہے شام کے چہرے پہ پَرتوِ شبِ غم

گزرنا ہو گیا دشوار رہگزاروں سے
یہ کس کے پاؤں کی آہٹ کو سن رہے ہیں ہم

ستارے بن کے مژہ پر چمک اٹھے آنسو
بلند ہو کے رہا تیری یاد کا پرچم

یہ کس کی یاد میں ہم آج مسکرائے ہیں
جہان بھر کا تبسمؔ مزاج ہے برہم

(صوفی تبسمؔ)

 
Top