تبسم ہستیِ بشر کیا ہے اِک نظر کا دھوکا ہے ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
ہستیِ بشر کیا ہے اِک نظر کا دھوکا ہے
آدمی کی صورت میں آدمی کا سایہ ہے

غایتِ نظر کیا ہے، جلوہ ہے کہ پردہ ہے
آنکھ سے جو دیکھا ہے، دل اسی کو ترسا ہے

صرصرِ حوادث سے مٹ گئے نشاں کیا کیا
اس جہانِ صحرا میں تیرا نقشِ پا کیا ہے

تم مجھے بھلا دو گے، میں تمھیں بھلا دوں گا
ساری بات دل کی ہے، دل کا کیا بھروسہ ہے

(صوفی تبسمؔ)
 
Top