نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    نذرانہ ۔ کیفی اعظمی

    نذرانہ از کیفی اعظمی تم پریشان نہ ہو، بابِ کرم وا نہ کرو اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا اسی کوچے میں جہاں چاند اگا کرتے ہیں شبِ تاریک گزاروں گا، چلا جاؤں گا راستہ بھول گیا، یا یہی منزل ہے مری کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں معلوم نہیں کہتے ہیں حسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں میں بھی کچھ...
  2. فرخ منظور

    آوارگانِ شوق سبھی گھر کے ہو گئے ۔ رضی اختر شوق

    آوارگانِ شوق سبھی گھر کے ہو گئے اک ہم ہی ہیں کہ کوچۂ دلبر کے ہو گئے پھر یوں ہوا کہ تجھ سے بچھڑنا پڑا ہمیں پھر یوں لگا کہ شہر سمندر کے ہو گئے کچھ دائرے تغیرِ دنیا کے ساتھ ساتھ ایسے کھنچے کہ ایک ہی محور کے ہو گئے اس شہر کی ہوا میں ہے ایسا بھی اک فسوں جس جس کو چھو گئی سبھی پتھر کے ہو گئے...
  3. فرخ منظور

    میر موسم آیا تو نخلِ دار میں میرؔ ۔ میر تقی میر

    دیر بد عہد وہ جو یار آیا دور سے دیکھتے ہی پیار آیا بیقراری نے مار رکھا ہمیں اب تو اس کے تئیں قرار آیا گردِ رہ اس کی اب اٹھو نہ اٹھو میری آنکھوں ہی پر غبار آیا اک خزاں میں نہ طیر بھی بولا میں چمن میں بہت پکار آیا ہار کر میں تو کاٹتا تھا گلا وہ قماری گلے کا ہار آیا طائرِ عمر کو نظر میں رکھ...
  4. فرخ منظور

    مجید امجد گہرے سُروں میں عرضِ نوائے حیات کر۔ مجید امجد

    گہرے سُروں میں عرضِ نوائے حیات کر سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر یہ دوریوں کا سیلِ رواں، برگِ نامہ بھیج یہ فاصلوں کے بندِ گراں، کوئی بات کر تیرا دیار، رات، مری بانسری کی لے اس خوابِ دل نشیں کو مری کائنات کر میرے غموں کو اپنے خیالوں میں بار دے ان الجھنوں کو سلسلۂ واقعات کر آ، ایک دن،...
  5. فرخ منظور

    سیف گرچہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گُزری ہے ۔ سیف الدین سیف

    کلام: سیف الدین سیفؔ گرچہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گُزری ہے پھر بھی جو دل پہ گزرتی تھی کہاں گزری ہے آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظامِ عالم آپ گزرے ہیں تو اک موجِ رواں گُزری ہے ہوش میں آئے تو بتلائے ترا دیوانہ دن گزارا ہے کہاں رات کہاں...
  6. فرخ منظور

    ہم شاعر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر وحید احمد

    ہم شاعر ہوتے ہیں ہم پیدا کرتے ہیں ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں تو شکلیں بنتی ہیں ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں جو مٹی تھے، وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں ہم شاعر ہوتے ہیں کنعان میں رہتے ہیں جب جلوہ کرتے ہیں تو ششدر انگشتوں کو پوریں نشتر دیتی ہیں پھر خون ٹپکتا ہے جو سرد...
  7. فرخ منظور

    شکیب جلالی بے جا نوازشات کا بارِ گراں نہیں ۔ شکیب جلالی

    بے جا نوازشات کا بارِ گراں نہیں میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں آغوشِ حادثات میں پائی ہے پرورش جو برق پھونک دے وہ مرا آشیاں نہیں کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دشواریوں پہ لوگ ہوں بے وطن ضرور مگر بے نشاں نہیں گھبرائیے نہ گردشِ ایام سے ہنوز ترتیبِ فصل‌ِ گل ہے یہ دورِ خزاں نہیں کچھ برق...
  8. فرخ منظور

    مجید امجد کوئی بھی دَور سرِ محفلِ زمانہ رہا ۔ مجید امجد

    کوئی بھی دَور سرِ محفلِ زمانہ رہا تمہارا ذکر رہا یا مرا فسانہ رہا مرے نشانِ قدم دشتِ غم پہ ثبت رہے اَبد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا وہ کوئی کنجِ سمن پوش تھا کہ تودۂ خس اک آشیانہ بہرحال آشیانہ رہا تم اک جزیرۂ دل میں سمٹ کے بیٹھ رہے مری نگاہ میں طوفانِ صد زمانہ رہا طلوعِ صبح کہاں، ہم...
  9. فرخ منظور

    مجید امجد کیا کہیے کیا حجابِ حیا کا فسانہ تھا ۔ مجید امجد

    کیا کہیے کیا حجابِ حیا کا فسانہ تھا سب کچھ بس اک نگاہِ کرم کا بہانہ تھا دیکھا تو ہرتبسمِ لب والہانہ تھا پرکھا تو ایک حیلۂ صنعت گرانہ تھا دنیا، امیدِ دید کی دنیا تھی دیدنی دیوار و در اداس تھے، موسم سہانا تھا ہائے وہ ایک شام کہ جب مست، نَے بلب میں جگنوؤں کے دیس میں تنہا روانہ تھا یہ کون ادھر...
  10. فرخ منظور

    میر ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ ۔ میر تقی میرؔ

    ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ تم اور ہم سے محبت تمھیں خلاف خلاف ہم اور الفتِ خوب دگر دروغ دروغ غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبحِ صادق کے شبِ فراق کو کب ہے سحر دروغ دروغ کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو...
  11. فرخ منظور

    مجید امجد کس کی گھات میں گم سم ہو، خوابوں کے شکاری جاگو بھی ۔ مجید امجد

    کس کی گھات میں گم سم ہو، خوابوں کے شکاری جاگو بھی اب آکاش سے پورب کا چرواہا ریوڑ ہانک چکا میں جو تیری راگ سبھا میں راس رچانے آیا تھا دل کی چھنکتی جھانجن تیری پازیبوں میں ٹانک چکا بوجھل پردے، بند جھروکا، ہر سایہ رنگیں دھوکا میں اک مست ہوا کا جھونکا، دوارے دوارے جھانک چکا اجڑی یادوں کے شہرِ...
  12. فرخ منظور

    عشقِ گریزاں ۔ قیوم نظر

    عشقِ گریزاں سرد ہو چکی محفل اور تو نے پروانے خواہشوں سے بیگانے جان سے گزرنے کا کھیل ہی نہیں کھیلا بجھ گیا ترا بھی دل سرد ہو چکی محفل آدمی کو جینا ہے ہم کنارِ غم ہو کر لطفِ زندگی کھو کر آج اور کل برسوں بے بسی کے بل برسوں زہرِ زیست پینا ہے آدمی کو جینا ہے عمر پر نہ جا اس کی یہ طویل مجبوری اپنی...
  13. فرخ منظور

    امیر مینائی جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا ۔ امیر مینائی

    یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا، پتا کہاں کوئے نازنیں کا غبار آسا نہیں کہیں کا، نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا بڑھے سلیماں کے جتنے رتبے، تمہاری الفت کے تھے کرشمے یہ نقش جس دل میں جم کے بیٹھے، بلند ہو نام اس نگیں کا کہاں کا نالہ، کہاں کا شیون، سنائے قاتل ہے وقتِ مردن قلم ہوئی ہے بدن سے گردن، زباں...
  14. فرخ منظور

    شو کمار بٹالوی اک کڑی جہدانام محبت ۔ شو کمار بٹالوی

    اشتہار اک کڑی جہدا نام محبت گم ہے۔ گم ہے گم ہے ! ساد مرادی سوہنی پھبت گم ہے۔ گم ہے۔ گم ہے! صورت اوس دی پریاں ورگی سیرت دی اوہ مریم لگدی ہسدی ہے تاں پُھل جھڑدے نیں ٹردی ہے تاں غزل ہے لگدی لم سلمّی سرو قد دی عمر اجے ہے مر کے اگ دی پر نیناں دی گل سمجھدی ! گمیاں جنم جنم ہن ہوئے پر لگدے جیوں کل دی...
  15. فرخ منظور

    مجید امجد کیا روپ دوستی کا؟ کیا رنگ دشمنی کا؟ ۔ مجید امجد

    کیا روپ دوستی کا؟ کیا رنگ دشمنی کا؟ کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا اک تنکا آشیانہ، اک راگنی اثاثہ اک موسمِ بہاراں، مہمان دو گھڑی کا آخر کوئی کنارا اس سیلِ بےکراں کا؟ آخر کوئی مداوا اس دردِ زندگی کا؟ میری سیہ شبی نے اک عمرآرزو کی لرزے کبھی افق پر تاگا سا روشنی کا شاید اِدھر سے گزرے...
  16. فرخ منظور

    آتش یہ قصہ ہے جب کا کہ آتشؔ جواں تھا ۔ خواجہ حیدر علی آتش

    شبِ وصل تھی چاندنی کا سماں تھا بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا مبارک شبِ قدر سے بھی وہ شب تھی سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل وہ شب صبحِ جنت کا جس پر گماں تھا عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل...
  17. فرخ منظور

    اب تو جی یہ چاہتا ہے اپنا گھر کوئی نہ ہو ۔ مبارک علی جلالی

    اب تو جی یہ چاہتا ہے اپنا گھر کوئی نہ ہو صحن و بام و چلمن و دیوار و در کوئی نہ ہو شام کی گلیوں میں کوئی چاپ نہ ابھرا کرے شور چڑیوں کا نہ آنگن کا شجر کوئی نہ ہو رات کی چھت پر کوئی تارہ نہ چمکے اس طرح طاق بھی روشن پسِ دیوار و در کوئی نہ ہو سائے کو پیڑوں تلے چھپ چھپ کے نہ رہنا پڑے دھوپ جب نکلے...
  18. فرخ منظور

    دلیپ کمار کی آخری خواہش ۔ عرفان شہود

    دلیپ کمار کی آخری خواہش لے چلو دوستو، لے چلو قِصہ خوانی کے بازار میں اُس مُحلے خُدا داد کی اک شِکستہ گلی کے مُقفل مکاں میں کہ بالائی زینوں کے مرقد کنویں کی زمیں چاٹتی پیاس کو دیکھ کر اپنی تِشنہ لبی بھول جاؤں غُٹر غُوں کی آواز ڈربوں سے آتی ہوئی سُن کے اپنے کبوتر اُڑا کے سِسکتی ہوئی یاد کو پھر...
  19. فرخ منظور

    مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ شاد لکھنوی

    بحر ہزج مسدس مخذوف مفاعیلن مفاعیلن فعلون مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی عام طور سے یہ مصرع میر تقی میر سے منسوب کیا جاتا ہے دراصل یہ مصرع شاد لکھنوی کا ہے۔ مکمل شعر کے ساتھ مکمل غزل حاضر خدمت ہے۔ وصالِ یار سے دونا ہوا عشق مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی مکمل غزل نہ پوچھو اے خضر حرص و ہوا کی گھٹا کی...
  20. فرخ منظور

    مکمل سعادت حسن منٹو کی یاد میں از شاہد احمد دہلوی

    سعادت حسن منٹو کی یاد میں از شاہد احمد دہلوی دبلا ڈیل، سوکھے سوکھے ہاتھ پاؤں ، میانے قد، چمپئی رنگ، بے قرار آنکھوں پر سنہرے فریم کی عینک ، کریم کلر کا سوٹ ، سُرخ چُہچہاتی ٹائی ، ایک دھان پان سا نوجوان مجھ سے ملنے آیا۔ یہ کوئی چوبیس پچیس سال اُدھر کا ذکر ہے ۔ بڑا بے تکلف، تیز، طرّار، چرب زبان۔...
Top