نذرانہ ۔ کیفی اعظمی

فرخ منظور

لائبریرین
نذرانہ
از
کیفی اعظمی

تم پریشان نہ ہو، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
اسی کوچے میں جہاں چاند اگا کرتے ہیں
شبِ تاریک گزاروں گا، چلا جاؤں گا
راستہ بھول گیا، یا یہی منزل ہے مری
کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں معلوم نہیں
کہتے ہیں حسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں
میں بھی کچھ لایا ہوں، کیا لایا ہوں معلوم نہیں
یوں تو جو کچھ تھا مرے پاس میں سب بیچ آیا
کہیں انعام ملا، اور کہیں قیمت بھی نہیں
کچھ تمہارے لیے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے
دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں
ایک تو اتنی حسیں دوسرے یہ آرائش
جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے
مسکرا دیتی ہو رسماً بھی اگر محفل میں
اک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے
گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر
جس کی اک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے
میں نے سوچا ہے کہ سب سوچتے ہوں گے شاید
پیاس اس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے
کیا کمی ہے جو کرو گی مرا نذرانہ قبول
چاہنے والے بہت، چاہ کے افسانے بہت
ایک ہی رات سہی گرمیٔ ہنگامۂ عشق
ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت
پھر بھی اک رات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں
کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو
کاش ایسا نہ ہو گھیرے رہے دنیا تم کو
اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو
آج کی رات جو میری ہی طرح تنہا ہے
میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا
تم پریشان نہ ہو، بابِ کرم وا نہ کرو

اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
 
آخری تدوین:
Top