امیر مینائی جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا ۔ امیر مینائی

فرخ منظور

لائبریرین
یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا، پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا، نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا

بڑھے سلیماں کے جتنے رتبے، تمہاری الفت کے تھے کرشمے
یہ نقش جس دل میں جم کے بیٹھے، بلند ہو نام اس نگیں کا

کہاں کا نالہ، کہاں کا شیون، سنائے قاتل ہے وقتِ مردن
قلم ہوئی ہے بدن سے گردن، زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا

قریب ہے یارو روز محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا


عجب مرقع ہے باغِ دنیا، کہ جس کا صانع نہیں ہویدا
ہزارہا صورتیں ہیں پیدا، پتا نہیں صورت آفریں کا

خدا سے جب تک نہ ہو شناسا، حریمِ دل کا ہے شوق بے جا
مکان کا تب پتا ملے گا، کہ کچھ یاد ہو پتا مکیں کا

کس آستانے پہ جا پڑا ہوں، کہاں الٰہی میں جبہ سا ہوں
کہ سر نہ اٹھے ہزار چاہوں، یہ ربط ہے سجدہ و زمیں کا

کہاں کا کعبہ ہے، دیر کیسا، بتاؤ کوچے کا اس کے رستا
میں پوچھتا ہوں پتا کہیں کا، نشان دیتے ہو تم کہیں کا

(امیر مینائی)
 
Top