نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب ۔ وہاب؟

    تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب لیکن اب قربتِ بیمار سے ڈر لگتا ہے جنکی آمد کو سمجھتے تھے خدا کی رحمت ایسے مہمانوں کے آثار سے ڈر لگتا ہے جو گلے مل لے مری جان کا دشمن ٹھہرے اب، ہر اک یارِ وفادار سے ڈر لگتا ہے ایک نادیدہ سی ہستی نے جھنجوڑا ایسے خلق کو ، گنبد و مینار سے ڈر لگتا ہے بن کے ماجوج،...
  2. فرخ منظور

    کرہِ ارض اس وقت ضروری مرمت کے لیے بند ہے۔ وسعت اللہ خان

    کرہِ ارض اس وقت ضروری مرمت کے لیے بند ہے۔ وسعت اللہ خان ۔ بی بی سی اردو جس کھڑکی کے قریب بیٹھ کر میں لکھائی پڑھائی کا کام کرتا ہوں، اسی کھڑکی کے باہر کونے میں چڑیا نے آج اپنا گھونسلہ مکمل کر لیا۔ اس کی آٹھ، نو سہیلیاں اور ایک طوطا مبارک باد دینے آئے ہیں۔ ایک چہچہاتی ہاؤس وارمنگ پارٹی چل رہی ہے۔...
  3. فرخ منظور

    شاعر کی فریاد ۔ عرفان ستار

    شاعر کی فریاد (تازہ مسدّس) (عرفان ستار) مشاعرے کے لیے کچھ بھی ہے قبول مجھے طعام کے لیے چاہے ملیں ببول مجھے خیال ِ شرم تو لگتا ہے اب فضول مجھے کہ روک سکتا نہیں کوئی بھی اصول مجھے مشاعرہ ہی ضروری ہے زندگی کے لیے بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے تو میں فراز کا لہجہ بنا کے آجاوٗں؟ سروں سے نرخرا...
  4. فرخ منظور

    رانجھن نے رنگ لایا ۔ براہ مہربانی کوئی دوست اس نعتیہ کلام کے شاعر کا نام بتا دیں

    براہِ مہربانی کوئی دوست اس نعتیہ کلام کے شاعر کا نام بتا دیں۔ حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
  5. فرخ منظور

    شو کمار بٹالوی شکرا ۔ شو کمار بٹالوی

    شکرا (شو کمار بٹالوی) مائے! نی مائے! میں اک شکرا یار بنایا اوہدے سر تے کلغی تے اوہدے پیریں جھانحھر تے اوہ چوگ چگیندا آیا نی میں واری جاواں! اک اوہدے روپ دی دھپ تکھیری دوجا مہکاں دا ترہایا تیجا اوہدا رنگ گلابی کسے گوری ماں دا جایا نی میں واری جاواں! نینیں اوہدے چیت دی آتھن اتے زلفیں ساون چھایا...
  6. فرخ منظور

    میر دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا ۔ میر

    دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک سر سے سودائے جستجو نہ گیا سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں لیکن اے داغ دل سے تُو نہ گیا دل میں کتنے مسودے تھے ولے ایک پیش اس کے روبرو نہ گیا سبحہ گرداں ہی میرؔ ہم تو رہے دستِ کوتاہ تا سبو نہ گیا میر تقی میر
  7. فرخ منظور

    رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا ۔ کلیم عثمانی

    رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پروائی کا اڑتے لمحوں کے دامن میں تیری یاد کی خوشبو ہے پچھلی رات کا چاند ہے یا ہے عکس تری انگڑائی کا کب سے نہ جانے گلیوں گلیوں سائے کی صورت پھرتے ہیں کس سے دل کی بات کریں ہم شہر ہے اس ہر جائی کا عشق ہماری...
  8. فرخ منظور

    یہاں نہیں ہے اگر روشنی ، یہاں سے نکل ۔ صابر ظفر

    یہاں نہیں ہے اگر روشنی ، یہاں سے نکل اور اس سے پہلے کہ گر جائے ، اس مکاں سے نکل عجب ترنگ ہے تنہا بھٹکتے رہنے میں نہیں ہے کوئی بھی منزل تو کارواں سے نکل سبھی خموش ہیں اور منتظر بہار کے ہیں خزاں سے کون کہے ،صحنِ گل ستاں سے نکل مخل ہے میرے سخن میں، اک ایسے عجز کی پھانس جسے میں کہہ نہیں...
  9. فرخ منظور

    قابل اجمیری کیسی رندوں کی طبیعت ، کیسا پیمانوں کا رخ ۔ قابل اجمیری

    کیسی رندوں کی طبیعت ، کیسا پیمانوں کا رخ گردشِ دوراں بدل دیتی ہے مے خانوں کا رخ ہم نے گلزاروں میں بھی دیکھی ہے خاک اڑتی ہوئی ایک ہی جانب نہیں رہتا بیابانوں کا رخ عاشقوں کے جمگھٹے ہیں تیری بزمِ ناز تک شمع بجھتے ہی بدل جاتا ہے پروانوں کا رخ سوکھتی جاتی ہیں آنکھیں ، ڈوبتے جاتے ہیں دل تیری محفل...
  10. فرخ منظور

    عاصمہ جہانگیر کو آغا شورش کاشمیری کا خراج تحسین

    عاصمہ جہانگیر کو آغا شورش کاشمیری کا خراج تحسین بنتِ جیلانی پہ ہو لطفِ خدائے ذوالجلال مائیں ایسی بیٹیاں جنتی ہیں لیکن خال خال رات دن میری دعا ہے بارگاہِ قدس میں جس کے گھر بیٹی ہو، وہ بیٹی ہو ایسی خوش خصال خطہِ پنجاب سے مایوس ہوں لیکن ابھی آ نہیں سکتا مسلمانوں کو اے شورش زوال ایک "اسما" غیرتِ...
  11. فرخ منظور

    خلقتِ شہر بھلے لاکھ دُہائی دیوے ۔ رحمان فارس

    خلقتِ شہر بھلے لاکھ دُہائی دیوے قصرِ شاہی کو دکھائی نہ سُنائی دیوے عشق وہ ساتویں حِس ہے کہ عطا ہو جس کو رنگ سُن جاویں اُسے، خوشبو دکھائی دیوے ایک تہ خانہ ہوں میں اور مرا دروازہ ہے تُو جُز ترے کون مجھے مجھ میں رسائی دیوے ہم کسی اور کے ہاتھوں سے نہ ہوں گے گھائل زخم دیوے تو وہی دستِ حنائی دیوے...
  12. فرخ منظور

    بشیر بدر راہوں میں کون آیا گیا کچھ پتا نہیں ۔ بشیر بدر

    راہوں میں کون آیا گیا کچھ پتا نہیں اس کو تلاش کرتے رہے جو ملا نہیں بے آس کھڑکیاں ہیں ستارے اداس ہیں آنکھوں میں آج نیند کا کوسوں پتا نہیں میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں بڑھیں وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں دل میں اسی طرح سے ہے بچپن کی ایک یاد شاید ابھی کلی کو ہوا نے چھوا نہیں چہرے پہ...
  13. فرخ منظور

    ترے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں ۔ صابر ظفر

    ترے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں مگر سجدہ تجھی کو کر رہے ہیں مبارک ہو تجھے تیری سخاوت کہ ہم جھولی میں پتھر بھر رہے ہیں ترے آگے انھیں پھیلاتے کیسے جو دامن آنسوؤں سے تر رہے ہیں انھیں بینائی دے جن کی نظر میں ترے ہو کر بھی ہم کافر رہے ہیں نہیں فرصت ادھر آنے کی تجھ کو...
  14. فرخ منظور

    انجمن پنجاب

    انجمن پنجاب سال1857کے ہنگامے کے بعد ملک میں ایک تعطل پیدا ہوگیا تھا ۔ اس تعطل کودور کرنے اور زندگی کو ازسر نو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایماءپر مختلف صوبوں اور شہروں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔ سب سے پہلے بمبئی ، بنارس ،لکھنو ، شاہ جہاں پور ، بریلی اور کلکتہ میں ادبی انجمنیں...
  15. فرخ منظور

    کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ ۔ زہرا نگاہ

    کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ وہ دلبرانِ زمیں، وہ فلک شعار سے لوگ وہ موسموں کی صفت سب کو باعثِ تسکیں وہ مہر و مہ کی طرح سب پہ آشکار سے لوگ ہر آفتاب سے کرنیں سمیٹ لیتے ہیں ہمارے شہر پہ چھائے ہوئے غبار سے لوگ ہم ایسے سادہ دلوں کی کہیں پہ جا ہی نہیں چہار سمت سے اُمڈے ہیں ہوشیار سے لوگ...
  16. فرخ منظور

    ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے ۔ ثاقب لکھنوی

    کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے ہجومِ تمنا سے گھٹتے تھے دل میں جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے تا...
  17. فرخ منظور

    صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور ۔ ریاض خیر آبادی

    کچھ آگے قتل گاہ میں ہم سے اجل گئی جانے سے پہلے جان ہماری نکل گئی صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی رکھتے نہ کوئی نام جوانی کو اے ریاض مہمان ایک رات کی آج آئی کل گئی پروانہ آگ کا تھا بنا شمع موم کی دیکھا جو بیقرار اسے یہ پگھل گئی لطفِ شباب جام چھلکنے سے آ...
  18. فرخ منظور

    تم گلستاں سے گئے ہو تو گلستاں چپ ہے ۔ مخدوم محی الدین

    تم گلستاں سے گئے ہو، تو گلستاں چپ ہے شاخِ گل کھوئی ہوئی، مرغِ خوش الحاں چپ ہے افقِ دل پہ دکھائی نہیں دیتی ہے دھنک غمزدہ موسمِ گل، ابرِ بہاراں چپ ہے عالمِ تشنگیِ بادہ گساراں مت پوچھ میکدہ دور ہے، مینائے زر افشاں چپ ہے اور آگے نہ بڑھا قصۂ دل قصۂ غم دھڑکنیں چپ ہیں، سرشکِ سرِ مژگاں چپ ہے شہر...
  19. فرخ منظور

    مجید امجد جھونکوں میں رس گھولے دل۔ مجید امجد

    جھونکوں میں رس گھولے دل پون چلے اور ڈولے دل جیون کی رُت کے سو روپ نغمے، پھول، جھکولے، دل تاروں کی جب جوت جگے اپنے خزانے کھولے دل یادوں کی جب پینگ چڑھے بول البیلے بولے دل کس کی دھن ہے باورے من؟ تیرا کون ہے؟ بھولے دل مجید امجد
  20. فرخ منظور

    میر خرابی کچھ نہ پوچھو ملکتِ دل کی عمارت کی ۔ میر تقی میر

    خرابی کچھ نہ پوچھو ملکتِ دل کی عمارت کی غموں نے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی نگاہِ مست سے جب چشم نے اس کی اشارت کی حلاوت مے کی اور بنیاد میخانے کی غارت کی سحرگہ میں نے پوچھا گل سے حالِ زار بلبل کا پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اودھر اشارت کی جلایا جس تجلی جلوہ گر نے طور کو ہم دم اسی آتش کے پر...
Top