قابل اجمیری کیسی رندوں کی طبیعت ، کیسا پیمانوں کا رخ ۔ قابل اجمیری

فرخ منظور

لائبریرین
کیسی رندوں کی طبیعت ، کیسا پیمانوں کا رخ
گردشِ دوراں بدل دیتی ہے مے خانوں کا رخ

ہم نے گلزاروں میں بھی دیکھی ہے خاک اڑتی ہوئی
ایک ہی جانب نہیں رہتا بیابانوں کا رخ

عاشقوں کے جمگھٹے ہیں تیری بزمِ ناز تک
شمع بجھتے ہی بدل جاتا ہے پروانوں کا رخ

سوکھتی جاتی ہیں آنکھیں ، ڈوبتے جاتے ہیں دل
تیری محفل میں بدل جاتا ہے طوفانوں کا رخ

زندگی بڑھتی ہے آگے ان کے تیور دیکھ کر
وقت بھی پہچانتا ہے تیرے دیوانوں کا رخ

کیسی کیسی محفلوں میں زلزلے آنے لگے
جوشِ وحشت نے کیا ہے آج ایوانوں کا رخ

آج بھی وہ غرقِ مستی، آج بھی ہم تشنہ کام
مے کدہ بدلا ، مگر بدلا نہ پیمانوں کا رخ

کیا ہوا ہم کو اگر دو چار موجیں چھو گئیں
ہم نے بدلا ہے نہ جانے کتنے طوفانوں کا رخ

قابل ؔ ان کی بے نیازی کا کرشمہ دیکھیے
اپنی جانب ہو گیا ہے سارے افسانوں کا رخ

قابل اجمیری
 
آخری تدوین:
Top