شاعر کی فریاد ۔ عرفان ستار

فرخ منظور

لائبریرین

شاعر کی فریاد (تازہ مسدّس)
(عرفان ستار)

مشاعرے کے لیے کچھ بھی ہے قبول مجھے
طعام کے لیے چاہے ملیں ببول مجھے
خیال ِ شرم تو لگتا ہے اب فضول مجھے
کہ روک سکتا نہیں کوئی بھی اصول مجھے
مشاعرہ ہی ضروری ہے زندگی کے لیے
بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے

تو میں فراز کا لہجہ بنا کے آجاوٗں؟
سروں سے نرخرا اپنا پکا کے آجاوٗں؟
میں ’’پا کے لاچا تے‘‘ کاجل سجا کے آجاوٗں؟
کہو تو جیب سے ڈالر لگا کے آجاوٗں؟
کوئی تو راہ دکھاوٗ سخنوری کے لیے
بس ایک بار بلالو مری خوشی کے لیے

سنا ہے آپ کی بیگم کو cartier ہے پسند؟
گھڑی خرید کے لاوٗں انھیں اگر ہے پسند؟
جناب آپ کو خود tommy hilfiger ہے پسند؟
بتادیں کھل کے اگر کوئی شے دگر ہے پسند؟
میں چاکلیٹ بھی لاوٗں گا آپ ہی کے لیے
بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے

سوائے اپنے کوئی کس کی سوچتا ہوگا؟
جو مجھ غریب کے آنے سے مسئلہ ہوگا
وہاں تو یوں بھی بہت شور ہو رہا ہوگا
جہاں ہیں تیس، اکتیس ہوں تو کیا ہوگا؟
مقام کوئی تو ہو مجھ رعایتی کے لیے؟
بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے

کسی بھی سچے سخندان تک نہیں پہنچا
میں بزم ِ شعر کے دربان تک نہیں پہنچا
نہ صرف یہ کہ خراسان تک نہیں پہنچا
مرا کلام تو ملتان تک نہیں پہنچا
مشاعرہ جو نہیں، تو مشاعری کے لیے؟
بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے

میں بے مشاعرہ مرتا ہوں، تم بچا لو نا؟
گل ِ تمنّا مرا بھی ذرا کھلا لو نا؟
مجھے کبھی نہ بلایا، مجھے بلا لو نا؟
بس ایک بار سہی، مجھ کو آزما لو نا؟
برا نہیں ہوں میں شاعر کبھی کبھی کے لیے
بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے

پرانی کار کسی کی اچک کے آجاوٗں؟
رواں نہ آیا تو شاید اٹک کے آجاوٗں؟
کہو تو سرمئی بس * پر لٹک کے آجاوٗں؟
شکاگو دور ہے کتنا، لپک کے آجاوٗں؟
مٹھائی لاوٗں گا شاعر برادری کے لیے
بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے

* یہاں Grey Hound نامی ایک سرمئی بس چلتی ہے۔

میں سازگار فضائے سخن بنا دوں گا
تو منتظم ہے خدائے سخن بنا دوں گا
تجھے میں ایک بلائے سخن بنا دوں گا
ترا پجامہ قبائے سخن بنا دوں گا
میں کارگر ہوں غزل کی فراہمی کے لیے
بس ایک بار بلا لو مری خوشی کے لیے
 
Top