عشقِ گریزاں ۔ قیوم نظر

فرخ منظور

لائبریرین
عشقِ گریزاں

سرد ہو چکی محفل
اور تو نے پروانے
خواہشوں سے بیگانے
جان سے گزرنے کا
کھیل ہی نہیں کھیلا
بجھ گیا ترا بھی دل
سرد ہو چکی محفل
آدمی کو جینا ہے
ہم کنارِ غم ہو کر

لطفِ زندگی کھو کر
آج اور کل برسوں
بے بسی کے بل برسوں
زہرِ زیست پینا ہے
آدمی کو جینا ہے
عمر پر نہ جا اس کی
یہ طویل مجبوری
اپنی اصل سے دوری
وجہِ دردِ ہستی ہے
ننگ نام و مستی ہے
عمر ہے سزا اس کی
عمر پر نہ جا اس کی
دیکھ رات جاتی ہے
اٹھ بھی جا لپک کر آ
بن سنور چمک کر آ
صبح ہونے سے پہلے
موت ہی سے دل بہلے
شمع جھلملاتی ہے
دیکھ رات جاتی ہے

(قیّوم نظر)
 
Top