دلیپ کمار کی آخری خواہش ۔ عرفان شہود

فرخ منظور

لائبریرین
دلیپ کمار کی آخری خواہش

لے چلو دوستو،
لے چلو قِصہ خوانی کے بازار میں
اُس مُحلے خُدا داد کی اک شِکستہ گلی کے مُقفل مکاں میں
کہ بالائی زینوں کے مرقد کنویں کی زمیں چاٹتی پیاس کو دیکھ کر اپنی تِشنہ لبی بھول جاؤں
غُٹر غُوں کی آواز ڈربوں سے آتی ہوئی سُن کے اپنے کبوتر اُڑا کے سِسکتی ہوئی یاد کو پھر بلاؤں

کسی باغ سے خشک میووں کی سوغات لے کر صدائیں لگاؤں،
زبانوں کے روغن کو زیتون کے ذائقے سے مِلاؤں
جمی سردیوں میں گلی کے اُسی تخت پہ نرم کرنوں سے چہرے پہ سُرخی سجاؤں
کہ یاروں کی اُن ٹولیوں میں نئی داستانیں سناؤں
اُنھی پان دانوں سے لالی چُراؤں۔۔۔۔ کہیں بھاگ جاؤں
مجھے اُن پرانی سی راہوں میں پھر لے چلو دوستو
ہاں!
مجھے لے چلو اس بسنتی، دُلاری، مدھو کی گلی میں
کہ آنکھوں کی وہ روشنی آج بھی میرے خوابوں کی زرتاب تعبیر ٹھہری
کہ کانوں میں اس کے ترنم کی گھنٹی
صحیفوں کی صورت اتاری گئی ہے

حسیں وادیوں میں کسی قہوہ خانے کے بنچوں پہ تازہ کئی وارداتیں ،
امڈتے ہوئے صوت و آہنگ کے دلکش حسیں زمزموں کے تلاطم میں رقصاں کئی اپسرائیں
سبھی کو بلاؤ کہ نغمہ سرائی کا یہ مرحلہ آخری ہے
بلاؤ مرے راج ٭ کو
آخری شب ہے پھر سے حسینوں کے جُھرمٹ میں بس آخری گھونٹ پی کے
فنا گھاٹیوں میں
مّیں یوں پھیل جاؤں کہ واپس نہ آؤں
سُنو دوست و و و و و و ۔

(عرفان شہود)

٭ راج کپور
 
آخری تدوین:
Top