نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    اشک بہاؤ آہ بھرو فریاد کرو ۔ شاد امرتسری

    غزل اشک بہاؤ آہ بھرو فریاد کرو کچھ تو قفس میں شکوۂ استبداد کرو ہر سو مرگ آثار خموشی چھائی ہے درد کے مارو شورشِ حشر ایجاد کرو صحرا صحرا خاک اڑانے سے حاصل قریہ قریہ قصرِ ستم برباد کرو عرضِ تمنا پر اب قدغن کیا معنی اپنے وعدے اپنی قسمیں یاد کرو آؤ آوارہ و گریزاں امیدو گھر کی ویرانی کو پھر...
  2. فرخ منظور

    رنگِ شکستہ ۔ عرفانہ عزیز

    رنگِ شکستہ آج بھی کاسنی پھولوں سے مہکتا ہو گا چاندنی رات میں آنگن گھر کا اور پھولوں سے پرے سبز سُتوں سے لپٹی برگِ آبی کی سکوں ریز وہ بیل خوش نصیبی کی علامت تھی کبھی جس کے سائے میں جواں سال محبت میری راحتِ دید سے مخمور رہی جامِ گل گُوں کی طرح کنجِ گُل پوش میں آویزاں تھی خواب نما شمعِ حسیں روشنی...
  3. فرخ منظور

    ہر نفس وقفِ آرزو کر کے ۔ عرفانہ عزیز

    ہر نفس وقفِ آرزو کر کے کچھ بھی پایا نہ جستجو کر کے سو شگوفے کھلا دیئے دل نے خندۂ گل سے گفتگو کر کے مسکراتا ہی کیوں نہ رہنے دوں فائدہ چاکِ دل رفو کر کے کتنے نو‌ خیز و نو دمیدہ پھول مر مٹے خواہشِ نمو کر کے غیرتِ دل نے آہِ سوزاں کو رکھ دیا سرمۂ گلو کر کے (عرفانہ عزیز)
  4. فرخ منظور

    ہر چند زخم زخم دریدہ بدن رہے ۔ عرفانہ عزیز

    ہر چند زخم زخم دریدہ بدن رہے گل رنگ تیری یاد کے سب پیرہن رہے دیکھا تجھے تو رنگِ پسِ رنگ تھی نظر یہ سلسلے بھی دل کے چمن در چمن رہے پہروں تصورات کی محفل سجی رہی پہروں ترے خیال سے محوِ سخن رہے ذوقِ جنوں پہ تنگ رہیں دل کی وسعتیں کس دشت کی تلاش میں شوریدہ تن رہے ہر چند تھیں خموش مرے دل کی...
  5. فرخ منظور

    سانجھ سویرے پنچھی گائیں لے کر تیرا نام ۔ عرفانہ عزیز

    سانجھ سویرے پنچھی گائیں لے کر تیرا نام ڈالی ڈالی پر ہے تیری یادوں کے بسرام بچھڑا ساتھی ڈھونڈ رہی ہے کونجوں کی اک ڈار بھیگے بھیگے نین اٹھائے دیکھ رہی ہے شام میٹھی نیند میں ڈوبے گاؤں بجھ گئے سارے دیپ برہا کے ماروں کا سکھ کے سپنوں سے کیا کام چھوڑ شکاری اپنی گھاتیں بدل گیا سنسار اڑ جائیں...
  6. فرخ منظور

    شعاعِ رنگ ۔ عرفانہ عزیز

    شعاعِ رنگ (عرفانہ عزیز) ثنائے صبح میں ہے محو آستانِ نسیم سنور گیا ہے گلِ تر کا سایۂ رخسار بدل گئی ہے ترے لب میں داستانِ بہار نکھر گئی ہے چمن میں ادائے موجِ شمیم مہک رہی ہے پیامِ صبا سے کوئے ندیم گلوں کو یاد ہے رعنائیِ قبائے نگار کنارِ جاں میں فروزاں ہے تیری راہگزار دمک رہے ہیں فضا میں گل و سمن...
  7. فرخ منظور

    کب دل کے زخم چارہ گروں سے رفو ہوئے ۔ عرفانہ عزیز

    کب دل کے زخم چارہ گروں سے رفو ہوئے جو ہاتھ دل کی سمت بڑھے، سب لہو ہوئے شکوے ہوئے کہ جور ہوئے، سب ہوئے تمام وہ حسنِ اتفاق سے جب روبرو ہوئے جس کے سبب ہر ایک سخن فہم ہے خفا مدت ہوئی ہے آپ سے وہ گفتگو ہوئے کیجے تلاش ترکِ تمنا کی صورتیں گزرا ہے اک زمانہ جگر کو لہو ہوئے شورش ہے ایک موجِ تلاطم کی...
  8. فرخ منظور

    مکمل فکر اقبال ۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم

    فکر اقبال ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم بزم اقبال لاہور ٭ فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامہ من شاخ نخل طور گشت اقبال سخنے چند ’’ فکر اقبال‘‘ کا آٹھواں ایڈیشن حاضر خدمت ہے۔ ساتویں ایڈیشن میں گزشتہ اشاعتوں کی اغلاط وغیرہ درست کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی گئی۔ یہ کام ڈاکٹر وحید قریشی ک نگرانی...
  9. فرخ منظور

    لتا سمجھے نہ بات میری ہائے رے اناڑی ۔ لتا منگیشکر

    سمجھے نہ بات میری ہائے رے اناڑی ۔ لتا منگیشکر فلم: سا ر گا ما پا موسیقار: گنیش
  10. فرخ منظور

    سودا اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے ۔ مرزا رفیع سودا

    غزل اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی چلے گئے پھر پھر گُل آ چکے پہ سجن تم بھلے گئے پوچھے ہے پھول و پھل کی خبر اب تُو عندلیب ٹوٹے، جھڑے، خزاں ہوئی، پھولے پھلے گئے دل خواہ کب کسی کو زمانے نے کچھ دیا جن کو دیا کچھ اس میں سے وے کچھ نہ لے گئے اے شمع، دل گداز کسی کا نہ ہو کہ شب پروانہ داغ تجھ سے ہوا، ہم...
  11. فرخ منظور

    مجید امجد سفر کی موج میں تھے، وقت کے غبار میں تھے ۔ مجید امجدم

    جہاں نورد سفر کی موج میں تھے، وقت کے غبار میں تھے وہ لوگ جو ابھی اس قریۂ بہار میں تھے وہ ایک چہرے پہ بکھرے عجب عجب سے خیال میں سوچتا تو وہ غم میرے اختیار میں تھے وہ ہونٹ جن میں تھا میٹھی سی ایک پیاس کا رس میں جانتا تو وہ دریا مرے کنار میں تھے مجھے خبر بھی نہ تھی اور اتفاق سے کل میں اس طرف...
  12. فرخ منظور

    میر تقی میر اور عشق ، تحریر: سعد اللہ خان سبیل

    میر تقی میر اور عشق تحریر: سعد اللہ خان سبیل قبل اس کے کہ میرؔ کی شاعری میں عشق و حسن کا جائزہ لیں ضروری ہے کہ میرؔ کی زندگی کے نشیب و فراز پر طائرآنہ نظر ڈالیں تاکہ ان کے شاعری میں عشق کی بہتات اور حسن کے اذکار کی وجوہات کا اندازہ ہوسکے ۔ میر تقی میر ؔ 1722 ء کو اکبرآباد میں پیدا ہوئے ان کے...
  13. فرخ منظور

    مصحفی ہے مئے گُل گوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں ۔ مصحفی

    ہے مئے گُل گوں کی تیرے یہ گلابی ہاتھ میں یا دلِ پُر خوں ہے میرا، اے شرابی! ہاتھ میں دیکھنے کو جلوہ تیرے حسن کا شب آسماں ماہ سے رکھتا ہے روشن ماہتابی ہاتھ میں جو نکل آیا وہ گُل گھر سے بوقتِ نیمروز مہرِ تاباں لے کے دوڑا آفتابی ہاتھ میں آستیں اس نے جو کہنی تک چڑھائی وقتِ صبح آ رہی سارے بدن کی بے...
  14. فرخ منظور

    بے نشاں ہونے سے پہلے ۔ عبدالاحد ساز

    بے نشاں ہونے سے پہلے زندگی اک دور تک سنگیت تھی اب شور ہے ہاں مگر اس شور کے بکھراؤ میں بے محابا صوت کے ٹکراؤ میں شاید ابھی اندوختہ کچھ زیر و بم ہوں آؤ ہم تم کوئی زیر و بم تلاشیں کوئی پیچ و خم تراشیں اور اس ترتیب کاری کی شعوری کوششوں کو لا شعوری نغمگی کی آخری مٹتی ہوئی سی گونج سے انگیز...
  15. فرخ منظور

    آواز کے موتی (گلوکار محمد رفیع کی موت پر) ۔ عبدالاحد ساز

    گلوکار محمد رفیع کی موت پر آواز کے موتی شعر کے جادوگر، سنگیت کے ساحر مصرعوں اور دھنوں کے خالی سیپوں کے کشکول اٹھائے افسردہ مغموم کھڑے ہیں سونی آنکھوں میں ٹوٹی امید لیے آواز کے ان نورس قطروں کی جو خالی سیپوں میں امرت بن کر ٹپکیں اور اظہار، گہر بن جائے لفظ کی بندش، تال کی سنگت، رقص کے...
  16. فرخ منظور

    نانی اماں کی وفات پر ۔ عبدالاحد ساز

    نانی اماں کی وفات پر آج بچپن کو دفن کر آئے موہنی جھریاں سبک آنکھیں مہرباں شفقتوں سے پُر چہرہ تھپکیاں دیتے ہاتھ، نرم آغوش چاہتیں، دیکھ بھال، پیار دلار سارے کنبے کی فکر سب کا خیال رابطے، رشتے داریاں، ناطے خاطریں، وضع داریاں، مہماں مرتبے، حیثیت، حساب نساب نظم و ترتیب، گھر کے اخراجات موت، میت،...
  17. فرخ منظور

    شیخ ایاز کے دوہے ترجمہ آفاق صدیقی

    شیخ ایاز کے دوہے ترجمہ آفاق صدیقی ہیر جلی اور بجھ گیا رانجھا ، سارا جھنگ تباہ راکھ میں اپنی کافی ڈھونڈے بیٹھا وارث شاہ پاؤں ہوئے پنوں کے اوجھل ، راکھ ہوا بھنبھور ہائے سسی یہ تیرے دکھڑے اور ہوا کا شور سانجھ ہوئی اور پنچھی گھر لوٹے، کبیرا رووئے اپنی اپنی جنم بھوم سے پریم سبھی کو ہووئے سمجھ کے...
  18. فرخ منظور

    عشق وابستہ ہوا شاخِ نمو داری سے ۔ صابر ظفر

    عشق وابستہ ہوا شاخِ نمو داری سے سارا جنگل مہک اٹھا اسی چنگاری سے دھیان آتا تھا تمہارا تو چہک اٹھتے تھے زندگی ورنہ گزاری بڑی بیزاری سے خود بخود تو نہیں کھلتا ہے کوئی بندِ قبا کی ہے آسانی یہ پیدا بڑی دشواری سے نہ ہی نسبت کوئی اپنی کسی دربار سے ہے نہ علاقہ ہی کوئی ہے کسی درباری سے سن رہا...
  19. فرخ منظور

    ہَوا کے رُخ پہ، رہِ اعتبار میں رکھا ۔ ایوب خاور

    ہَوا کے رُخ پہ، رہِ اعتبار میں رکھا بس اِک چراغ کُوئے انتظار میں رکھا عجب طلسمِ تغافُل تھا جس نے دیر تلک مری اَنا کو بھی کُنج خُمار میں رکھا اُڑا دیے خس و خاشاکِ آرزو سرِ راہ بس ایک دِل کو ترے اِختیار میں رکھا فروغِ موسمِ گل پیش تھا سو میں نے بھی خزاں کے زخم کو دشتِ بہار میں رکھا نجانے کون...
  20. فرخ منظور

    عید کے دن ۔ قابل اجمیری

    عید کے دن کوئی شائستۂ وَحشت نہ کوئی اہلِ نظر وُسعتِ چاکِ گرِیباں کو نَدامت ہی رہی شمعِ دِیجور کا سینہ ہے اُجالوں کی لَحد داغ ہائے دلِ ویراں کو نَدامت ہی رہی آئینہ خانۂ تخّیل ہیں دُھندلائے ہوئے جَلوۂ حُسنِ فَراواں کو نَدامت ہی رہی صرف ہونٹوں کا تبسّم تو کوئی بات نہیں اِن سویروں کے لئے ہم نے...
Top