ہَوا کے رُخ پہ، رہِ اعتبار میں رکھا ۔ ایوب خاور

فرخ منظور

لائبریرین
ہَوا کے رُخ پہ، رہِ اعتبار میں رکھا
بس اِک چراغ کُوئے انتظار میں رکھا

عجب طلسمِ تغافُل تھا جس نے دیر تلک
مری اَنا کو بھی کُنج خُمار میں رکھا

اُڑا دیے خس و خاشاکِ آرزو سرِ راہ
بس ایک دِل کو ترے اِختیار میں رکھا

فروغِ موسمِ گل پیش تھا سو میں نے بھی
خزاں کے زخم کو دشتِ بہار میں رکھا

نجانے کون گھڑی تھی کہ اپنے ہاتھوں سے
اُٹھا کے شیشۂِ جاں اِس غبار میں رکھا

یہ کِس نے مثلِ مہ و مہر اپنی اپنی جگہ
وصال و ہجر کو ان کے مدار میں رکھا

لہو میں ڈولتی تنہائی کی طرح خاورؔ
ترا خیال دِلِ بے قرار میں رکھا

(ایوب خاورؔ)

 
Top