آواز کے موتی (گلوکار محمد رفیع کی موت پر) ۔ عبدالاحد ساز

فرخ منظور

لائبریرین
گلوکار محمد رفیع کی موت پر

آواز کے موتی

شعر کے جادوگر، سنگیت کے ساحر
مصرعوں اور دھنوں کے خالی سیپوں کے کشکول اٹھائے
افسردہ مغموم کھڑے ہیں
سونی آنکھوں میں ٹوٹی امید لیے
آواز کے ان نورس قطروں کی
جو خالی سیپوں میں امرت بن کر ٹپکیں
اور اظہار، گہر بن جائے
لفظ کی بندش، تال کی سنگت، رقص کے تیور
بے حرکت بے جان دھرے ہیں
ان ہونٹوں کی حسرت میں
جن کی پیچیدہ ترسیل خمیدہ جنبش
صوت و بیاں کو معنی کی سو جہتیں بخشا کرتی تھی
یاد میں اس پر نور دہن کی
جس سے ابلتی تہہ در تہہ آواز کے روشن جادو سے
شبد سروں میں گھل جاتے تھے
نوکِ قلم سے بربط کے تاروں تک جلتے داغ
آبِ صدا سے دھل جاتے تھے
(اس کے دل کش گیت ہواؤں کے ہونٹوں پر صدیوں تک محفوظ رہیں گے)
شور بھری دنیا کی دکھی تنہائی میں
عمر کی جس منزل پہ جس جیون کی ڈگر پر
جذبوں کی جس راہ گزر پر
دل کا مسافر پل دو پل کو ٹھہرے گا
اس کی صدا کے ہم دم ہاتھ
بجھی ہوئی بیزار سماعت کے شانے تھپکیں گے
من کا دکھ بانٹیں گے
رنج، خوشی، موسم، تہوار
وصل، جدائی، درد، قرار
امیدوں کی مستی، ٹوٹے خوابوں کی الجھن
ظلم، بغاوت، گاؤں، وطن
عہدِ کہن کے رمز، نئے یگ کی تفسیریں
عشق، عبادت، آئینہ خانے، تنویریں
ہر گھر ہر محفل اس کی آواز کے موتی
بامِ ہوا سے برسیں گے
آہ مگر
الفاظ کی بندش، تال کی سنگت، رقص کے تیور
اس کی دھن کے نئے اجالوں نئے افق کو
رہتی دنیا تک ترسیں گے

(عبدالاحد سازؔ)
 
آخری تدوین:
Top