رنگِ شکستہ ۔ عرفانہ عزیز

فرخ منظور

لائبریرین
رنگِ شکستہ

آج بھی کاسنی پھولوں سے مہکتا ہو گا
چاندنی رات میں آنگن گھر کا
اور پھولوں سے پرے

سبز سُتوں سے لپٹی
برگِ آبی کی سکوں ریز وہ بیل
خوش نصیبی کی علامت تھی کبھی
جس کے سائے میں جواں سال محبت میری
راحتِ دید سے مخمور رہی
جامِ گل گُوں کی طرح
کنجِ گُل پوش میں آویزاں تھی
خواب نما شمعِ حسیں
روشنی جس کو گواہی دے گی
میں نے ہر پھول کو سینچا تھا لہو سے اپنے
رنگِ شکستہ کی طرح
میرا لہو
اجنبی دیس کی مٹی سے شناسا نہ ہوا

(عرفانہ عزیز)
 
Top