عرفانہ عزیز

  1. فرخ منظور

    رنگِ شکستہ ۔ عرفانہ عزیز

    رنگِ شکستہ آج بھی کاسنی پھولوں سے مہکتا ہو گا چاندنی رات میں آنگن گھر کا اور پھولوں سے پرے سبز سُتوں سے لپٹی برگِ آبی کی سکوں ریز وہ بیل خوش نصیبی کی علامت تھی کبھی جس کے سائے میں جواں سال محبت میری راحتِ دید سے مخمور رہی جامِ گل گُوں کی طرح کنجِ گُل پوش میں آویزاں تھی خواب نما شمعِ حسیں روشنی...
  2. فرخ منظور

    ہر نفس وقفِ آرزو کر کے ۔ عرفانہ عزیز

    ہر نفس وقفِ آرزو کر کے کچھ بھی پایا نہ جستجو کر کے سو شگوفے کھلا دیئے دل نے خندۂ گل سے گفتگو کر کے مسکراتا ہی کیوں نہ رہنے دوں فائدہ چاکِ دل رفو کر کے کتنے نو‌ خیز و نو دمیدہ پھول مر مٹے خواہشِ نمو کر کے غیرتِ دل نے آہِ سوزاں کو رکھ دیا سرمۂ گلو کر کے (عرفانہ عزیز)
  3. فرخ منظور

    ہر چند زخم زخم دریدہ بدن رہے ۔ عرفانہ عزیز

    ہر چند زخم زخم دریدہ بدن رہے گل رنگ تیری یاد کے سب پیرہن رہے دیکھا تجھے تو رنگِ پسِ رنگ تھی نظر یہ سلسلے بھی دل کے چمن در چمن رہے پہروں تصورات کی محفل سجی رہی پہروں ترے خیال سے محوِ سخن رہے ذوقِ جنوں پہ تنگ رہیں دل کی وسعتیں کس دشت کی تلاش میں شوریدہ تن رہے ہر چند تھیں خموش مرے دل کی...
  4. فرخ منظور

    سانجھ سویرے پنچھی گائیں لے کر تیرا نام ۔ عرفانہ عزیز

    سانجھ سویرے پنچھی گائیں لے کر تیرا نام ڈالی ڈالی پر ہے تیری یادوں کے بسرام بچھڑا ساتھی ڈھونڈ رہی ہے کونجوں کی اک ڈار بھیگے بھیگے نین اٹھائے دیکھ رہی ہے شام میٹھی نیند میں ڈوبے گاؤں بجھ گئے سارے دیپ برہا کے ماروں کا سکھ کے سپنوں سے کیا کام چھوڑ شکاری اپنی گھاتیں بدل گیا سنسار اڑ جائیں...
  5. فرخ منظور

    شعاعِ رنگ ۔ عرفانہ عزیز

    شعاعِ رنگ (عرفانہ عزیز) ثنائے صبح میں ہے محو آستانِ نسیم سنور گیا ہے گلِ تر کا سایۂ رخسار بدل گئی ہے ترے لب میں داستانِ بہار نکھر گئی ہے چمن میں ادائے موجِ شمیم مہک رہی ہے پیامِ صبا سے کوئے ندیم گلوں کو یاد ہے رعنائیِ قبائے نگار کنارِ جاں میں فروزاں ہے تیری راہگزار دمک رہے ہیں فضا میں گل و سمن...
  6. فرخ منظور

    کب دل کے زخم چارہ گروں سے رفو ہوئے ۔ عرفانہ عزیز

    کب دل کے زخم چارہ گروں سے رفو ہوئے جو ہاتھ دل کی سمت بڑھے، سب لہو ہوئے شکوے ہوئے کہ جور ہوئے، سب ہوئے تمام وہ حسنِ اتفاق سے جب روبرو ہوئے جس کے سبب ہر ایک سخن فہم ہے خفا مدت ہوئی ہے آپ سے وہ گفتگو ہوئے کیجے تلاش ترکِ تمنا کی صورتیں گزرا ہے اک زمانہ جگر کو لہو ہوئے شورش ہے ایک موجِ تلاطم کی...
Top