کب دل کے زخم چارہ گروں سے رفو ہوئے ۔ عرفانہ عزیز

فرخ منظور

لائبریرین
کب دل کے زخم چارہ گروں سے رفو ہوئے
جو ہاتھ دل کی سمت بڑھے، سب لہو ہوئے

شکوے ہوئے کہ جور ہوئے، سب ہوئے تمام
وہ حسنِ اتفاق سے جب روبرو ہوئے

جس کے سبب ہر ایک سخن فہم ہے خفا
مدت ہوئی ہے آپ سے وہ گفتگو ہوئے

کیجے تلاش ترکِ تمنا کی صورتیں
گزرا ہے اک زمانہ جگر کو لہو ہوئے

شورش ہے ایک موجِ تلاطم کی تھم گئی
شوریدہ سر زمانے کی جب آبرو ہوئے

نکلے جو منزلوں کی تمنا میں کھو گئے
جو سنگِ در پہ تیرے جھکے سرخ رو ہوئے

(عرفانہ عزیز)
 
Top