شیزان کی پسند

  1. شیزان

    سلیم کوثر میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کُھلا۔ سلیم کوثر

    میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کُھلا وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کُھلا وہ میرے ساتھ ہے اور مجھ سے ہمکلام بھی ہے یہ ایک عُمر کی تنہائیوں کے بعد کُھلا میں خُود بھی تیرے اندھیروں پہ مُنکشف نہ ہوا ترا وجود بھی پرچھائیوں کے بعد کُھلا عجب طلسمِ خموشی تھا گھر کا سناٹا جو بام و دَر کی...
  2. شیزان

    عدیم ہاشمی اُڑ کر کبُوتر ایک سرِ بام آ گیا۔ عدیم ہاشمی

    اُڑ کر کبُوتر ایک سرِ بام آ گیا مجھ کو یہی لگا ترا پیغام آ گیا میں گِن رہا تھا آج پُرانی محبتیں ہونٹوں پہ آج پھر سے ترا نام آ گیا رکھا تھا ہاتھ نبض پہ چُھونے کے واسطے اُس نے یہ کہہ دیا ، مجھے آرام آ گیا احساں کا ڈھنگ ڈھونڈتے پھرتے رہے عزیز جو یار تھا عدیم، مرے کام آ گیا وہ اِک نظر...
  3. شیزان

    عدیم ہاشمی جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر۔ عدیم ہاشمی

    جلتا رہا ہوں رات کی تپتی چٹان پر سُورج تھا جیسے، چاند نہ تھا آسمان پر اِک روگ ہے کہ جاں کو لگا ہے اُڑان کا ٹُوٹا ہوا پڑا ہوں پروں کی دُکان پر میں راستوں میں اُس کا لگاؤں کہاں سُراغ سو سو قدم ہیں، ایک قدم کے نِشان پر بادل کو چُومتی رہیں پُختہ عمارتیں بجلی گِری تو شہر کے کچے مکان پر...
  4. شیزان

    سلیم کوثر ابھی سینے میں دل اور آنکھ میں تصویر زندہ ہے۔ سلیم کوثر

    ابھی سینے میں دل اور آنکھ میں تصویر زِندہ ہے کوئی تو خواب ہے، جس کے لئے تعبیر زِندہ ہے عجب اندیشۂ سُود و زیاں کے درمیاں ہیں ہم کہ فردِ جرم غائب ہے مگر تعزیر زِندہ ہے پلٹ کر دیکھنا عادت نہیں تیری، مگر پھر بھی سُبک رفتارئ دُنیا، ابھی اِک تِیر زِندہ ہے سِتم ایجاد لمحوں نے لبوں کو سِی دیا،...
  5. شیزان

    سلیم کوثر ہم دل میں تری چاہ زیادہ نہیں رکھتے۔ سلیم کوثر

    ہم دل میں تری چاہ زیادہ نہیں رکھتے لیکن تجھے کھونے کا اِرادہ نہیں رکھتے کچھ ایسے سُبک سر ہوئے ہم اہلِ مُسافت منزل کے لئے خواہشِ جادہ نہیں رکھتے وہ تنگئ خلوت ہوئی اب تیرے لئے بھی دل رکھتے ہوئے سینہ کُشادہ نہیں رکھتے کِس قافلۂ چشم سے بچھڑے ہیں کہ اب تک جُز دَربدری کوئی لبادہ نہیں رکھتے کچھ...
  6. شیزان

    سلیم کوثر نہ ہونے پر بھی کوئی آسرا غنیمت ہے، سلیم کوثر

    نہ ہونے پر بھی کوئی آسرا غنیمت ہے وہ بےبسی ہے کہ یادِخدا غنیمت ہے یہاں کِسی کو کِسی کی خبر نہیں ملتی بس ایک رشتہء آب و ہوا غنیمت ہے اندھیری رات کے اِس بیکراں تسلسل میں جلا دیا جو کِسی نے دِیا، غنیمت ہے تمام راہیں ہوئیں گردِ ممکنات میں گُم مُسافروں کو ترا نقشِ پا غنیمت ہے وہ کوئی زہر کا...
  7. شیزان

    عدیم ہاشمی حیراں ہوں زِندگی کی انوکھی اُڑان پر

    حیراں ہوں زِندگی کی انوکھی اُڑان پر پاؤں زمین پر ہیں ، مزاج آسمان پر آتا نہیں یقین کِسی کی زُبان پر بادل کا ہو رہا ہے گماں بادبان پر کِرنوں کے تِیر چلنے لگے ہیں جہان پر بیٹھا ہوا ہے کون فلک کی مچان پر یہ زخم تو مِلا تھا کِسی اور سے مجھے کیوں شکل تیری بننے لگی ہے نِشان پر اِتنے سِتم...
  8. شیزان

    عدیم ہاشمی شبِ ہجراں تھی جو بسر نہ ہوئی

    شبِ ہجراں تھی جو بسَر نہ ہوئی ورنہ کِس رات کی سحر نہ ہوئی ایسا کیا جرم ہو گیا ہم سے کیوں ملاقات عُمر بھر نہ ہوئی اشک پلکوں پہ مُستقل چمکے کبھی ٹہنی یہ بے ثمر نہ ہوئی تیری قُربت کی روشنی کی قسم صُبح آئی مگر سحر نہ ہوئی ہم نے کیا کیا نہ کر کے دیکھ لیا کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی کتنے...
  9. شیزان

    محسن نقوی میں کل تنہا تھا، خلقت سو رہی تھی

    میں کل تنہا تھا، خلقت سو رہی تھی مجھے خُود سے بھی وحشت ہو رہی تھی اُسے جکڑا ہُوا تھا زندگی نے سرہانے موت بیٹھی رو رہی تھی کُھلا مجھ پر کہ میری خوش نصیبی میرے رستے میں کانٹے بَو رہی تھی مجھے بھی نارسائی کا ثمر دے مجھے تیری تمنا جو رہی تھی میرا قاتِل میرے اندر چُھپا تھا مگر بدنام خلقت...
  10. شیزان

    محسن نقوی فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا

    فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا...
  11. شیزان

    کبھی قاتِل ، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے۔ ابنِ صفی

    کبھی قاتِل ، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے ہائے کیا چیز یہ سینے کی جلن ہوتی ہے چھیڑیے قصۂ اغیار ہی ، ہم سُن لیں گے کچھ تو کہئے کہ خموشی سے گھٹن ہوتی ہے یادِ ماضی ہے کہ نیزے کی اَنّی، کیا کہئے؟ ذہن میں ایسی چُبھن ، ایسی چُبھن ہوتی ہے پُھول کِھلتے ہی چمن آنکھ سے اوجھل ہو کر ڈھونڈتا ہے اُسے، جو رشکِ...
  12. شیزان

    کردار کی جھلکیاں۔ ابنِ صفی

    ایک اقتباس "اِدھر اُدھر کی باتوں میں آدمی ہمیشہ ننگا ہو جاتا ہے۔ یعنی تمہاری روح اور فرشتے اِدھر اُدھر کی باتوں میں لازمی طور پر ظاہر ہو جائیں گے۔ تم اِدھر اُدھر کی باتوں میں غیرشعوری طور پر اپنے کردار کی جھلکیاں دکھاتے چلے جاؤ گے۔" ابنِ صفی
  13. شیزان

    عدیم ہاشمی غزل کو پھر سجا کے صُورتِ محبوب لایا ہوں، عدیم ہاشمی

    غزل کو پھر سجا کے صُورتِ محبوب لایا ہوں سُنو اہلِ سُخن! میں پھر نیا اسلُوب لایا ہوں کہو، دستِ محبت سے ہر اِک در پر یہ دستک کیوں کہا ، سب کے لیے میں پیار کا مکتُوب لایا ہوں کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے کہا، اِک واقعہ میں آپ سے منسُوب لایا ہوں کہو ، یہ جسم کِس کا، جاں کِس...
  14. شیزان

    عدیم ہاشمی اُس نے کہا، ہم آج سے دلدار ہو گئے۔ عدیم ہاشمی

    اُس نے کہا، ہم آج سے دلدار ہو گئے سب لوگ اُس کے دل کے طلبگار ہو گئے اُس نے کہا کہ ایک حسیں چاہیے مجھے سارے ہی لوگ زینتِ بازار ہو گئے اُس نے کہا کہ صاحبِ کردار ہے کوئی اِک پل میں لوگ صاحبِ کردار ہو گئے اُس نے کہا کہ مجھے مِری تعمیر چاہیے جو خشت وسنگ بار تھے ، معمار ہو گئے اُس نے کہا،...
  15. شیزان

    عدیم ہاشمی ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے۔ عدیم ہاشمی

    ہم بہرحال دل و جاں سے تمہارے ہوتے تم بھی اِک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے عکس پانی میں محبت کے اُتارے ہوتے ہم جو بیٹھے ہوئے ، دریا کے کنارے ہوتے جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے کونسا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے آپ تو...
  16. شیزان

    عدیم ہاشمی زندگی پاؤں نہ دَھر جانبِ انجام ابھی۔ عدیم ہاشمی

    زندگی پاؤں نہ دَھر جانبِ انجام ابھی مرے ذمے ہیں ادُھورے سے کئی کام ابھی ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا گھیر لیتی ہے تری یاد سرِشام ابھی اِک نظر اور اِدھر دیکھ مسیحا میرے ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی رات آئی ہے تو کیا ، تم تو نہیں آئے ہو مری قسمت میں کہاں لِکھا ہے آرام ابھی جان...
  17. شیزان

    عدیم ہاشمی ہلے نہ ہونٹ ترے قُرب کے بیاں کے لیے۔ عدیم ہاشمی

    ہلے نہ ہونٹ ترے قُرب کے بیاں کے لیے یہ ذائقہ ہی نیا ہے مری زباں کے لیے میں کون کون سے دیوار و دَر کو یاد کروں دھڑک رہا ہے مرا دل تو ہر مکاں کے لیے کہاں لکھوں کہ نہ پہنچے جہاں یہ وقت کا ہاتھ قدم کہاں پہ دھروں دائمی نشاں کے لیے نہ اب وہ اپنی تمنا، نہ اب وہ خواہشِ خاص میں جی رہا ہوں یہ کس...
  18. شیزان

    جگر جُنوں کم، جُستجُو کم، تشنگی کم۔ جگر مُراد آبادی

    جُنوں کم، جُستجُو کم، تشنگی کم نظر آئے نہ کیوں دریا بھی شبنم بحمد اللہ! تُو ہے جس کا ہمدم کہاں اُس قلب میں گنجائشِ غم؟ توجہ بےنہایت اور نظر کم خوشا یہ التفاتِ حُسنِ برہم ! مری آنکھوں نے دیکھا ہے وہ عالم کہ ہر عالم ہے لغزشِ ہائے پیہم خطا کیونکر نہ ہوتی عافیت سوز؟ کہ جنت ہی نہ تھی معراجِ...
  19. شیزان

    جگر دیدہء یار بھی پُرنم ہے، خُدا خیر کرئے! ۔ جگر مُراد آبادی

    دِیدہء یار بھی پُرنم ہے، خُدا خیر کرئے! آج کچھ اور ہی عالم ہے، خُدا خیر کرئے! اُس طرف غیرتِ خُورشیدِ جمال اور اِدھر زعم خوددارئ شبنم ہے، خُدا خیر کرئے! دِل ہے پہلُو میں کہ مچلا ہی چلا جاتا ہے اور خُود سے بھی وہ برہم ہے، خُدا خیر کرئے! رازِ بیتابئ دل کچھ نہیں کُھلتا، لیکن کل سے درد آج بہت...
  20. شیزان

    جگر اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں، جِگر مُراد آبادی

    اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں آ اے غمِ محبت ! تجھ کو گلے لگائیں بیٹھا ہوں مست و بےخُود، خاموش ہیں فضائیں کانوں میں آ رہی ہیں بُھولی ہوئی صدائیں سب اُن پہ ہیں تصدّق، وہ سامنے تو آئیں اشکوں کی آرزُوئیں، آنکھوں کی اِلتجائیں عُشاق پا رہے ہیں ہر جُرم پر سزائیں انعام بٹ رہے ہیں،...
Top