شیزان کی پسند

  1. شیزان

    سیف مسجد و منبر کہاں میخوار و میخانے کہاں

    مسجد و منبر کہاں،میخوار و میخانے کہاں کیسے کیسے لوگ آ جاتے ہیں سمجھانے کہاں یہ کہاں تک پھیلتی جاتی ہیں دل کی وسعتیں حسرتو! دیکھو سمٹ آئے ہیں ویرانے کہاں میں بہت بچ بچ کے گزرا ہوں غمِ ایام سے لُٹ گئے تیرے تصور سے پری خانے کہاں یہ بھی تیرے غم کا اِک بدلا ہوا انداز ہے میں کہاں ورنہ غم ِ دوراں...
  2. شیزان

    سیف باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں

    باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں اور برق ڈھونڈتی ہے مجھے آشیانے میں اب کِس سے دوستی کی تمنا کریں گے ہم اِک تم جو مل گئے ہو سارے زمانے میں اے حسن! میرے شوق کو الزام تو نہ دے تیرا تو نام تک نہیں میرے فسانے میں روئے لپٹ لپٹ کے غمِ دو جہاں سے ہم وہ لذتیں ملیں ہمیں آنسو بہانے میں ہر سانس کھنچ...
  3. شیزان

    سیف کوئی نہیں آتا سمجھانے

    کوئی نہیں آتا سمجھانے اب آرام سے ہیں دیوانے طے نہ ہوئے دل کے ویرانے تھک کر بیٹھ گئے دیوانے مجبُوری سب کو ہوتی ہے ملنا ہو تو لاکھ بہانے بن نہ سکی احباب سے اپنی وہ دانا تھے، ہم دیوانے نئی نئی اُمیدیں آ کر چھیڑ رہی ہیں زخم پرانے جلوہء جاناں کی تفسیریں ایک حقیقت، لاکھ فسانے دنیا بھر کا درد سہا...
  4. شیزان

    سیف تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں

    تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں سوچا تھا پہلے کر لوں وہ کام جو مجھ کو کرنے ہیں پھر تو سارے ماہ و سال اُسی کے ساتھ گزرنے ہیں جب یہ فرض ادا کر لوں گا، جب یہ قرض اُتاروں گا عمر کا باقی حصہ تیری یاد کے ساتھ گزاروں گا آج فراغت پاتے ہی ماضی کا دفتر کھولا ہے تنہائی میں بیٹھ کے اپنا اِک اِک زخم...
  5. شیزان

    سیف جب تصور میں نہ پائیں گے تمہیں

    جب تصور میں نہ پائیں گے تمہیں پھر کہاں ڈھونڈنے جائیں گے تمہیں تم نے دیوانہ بنایا مجھ کو لوگ افسانہ بنائیں گے تمہیں حسرتو ! دیکھو یہ ویرانہ دل اِس نئے گھر میں بسائیں گے تمہیں میری وحشت، مرے غم کے قصے لوگ کیا کیا نہ سنائیں گے تمہیں آہ میں کتنا اثر ہوتا ہے یہ تماشا بھی دکھائیں گے تمہیں آج کیا...
  6. شیزان

    نہ پوچھو مصریو! کیا چاہیے ہے۔ انور شعور

    نہ پوچھو مصریو! کیا چاہیے ہے میں یُوسف ہوں، زُلیخا چاہیے ہے مُسافر کو جو جنگل سے نِکالے وہ پگڈنڈی، وہ رستہ چاہیے ہے قلم یا مو قلم سے کیا بتاؤں جو صُورت ، جو سراپا چاہیے ہے نظر آتا ہے کم کم گل رُخوں میں مجھے جو ناک نقشہ چاہیے ہے تمنا آپ ہی کی تھی مگر، اب کوئی بھی آپ جیسا چاہیے ہے تمہارا...
  7. شیزان

    سلیم احمد جو منحرف تھے، انہی کو گواہ میں نے کِیا۔ سلیم احمد

    جو منحرف تھے، انہی کو گواہ میں نے کِیا سلیم سب سے بڑا یہ گناہ میں نے کِیا جو میرے رنگ تھے ، سب مو قلم کی نذر کیے نہ کچھ بھی فرق سپید وسیاہ میں نے کِیا یہیں سے خواب زلیخا کی راہ جاتی ہے سو اپنی راہ میں تعمیر چاہ میں نے کِیا کُھلا نہ عصمت و عصیاں راز سر بستہ اُسے نہ جان کر کیسا گناہ میں نے...
  8. شیزان

    سلیم احمد پرسشِ التفات سے اور قلق سوا ہُوا۔ سلیم احمد

    پرسشِ التفات سے اور قلق سوا ہُوا حرفِ تپاکِ حسن میں زہر سا تھا ملا ہُوا یوں بھی ہزار خواہشیں باعثِ اضطراب تھیں اور تری جدائی کا زخم بھی تھا لگا ہُوا موت کی طرح دفعتاً ساعتِ ہجر آئی تھی جیسے چراغ جل بجھ،ے مجھ سے وہ یوں جُدا ہُوا میرا ملال بے سبب تجھ پہ کہیں گراں نہ ہو آج نہ مِل کہ آج تو دل ہے...
  9. شیزان

    سلیم احمد فضا لیتی ہے ہر شے کا حساب آہستہ آہستہ۔ سلیم احمد

    فضا لیتی ہے ہر شے کا حساب آہستہ آہستہ اُترتے ہیں زمینوں پر عذاب آہستہ آہستہ سبب یا مصلحت کُھلتی نہیں لیکن یہ حیرت ہے جرائم تیز تر اور احتساب آہستہ آہستہ کسی کو کیا ،دلوں کو بھی خبرہونے نہیں پاتی بدل جاتی ہے چشمِ انتخاب آہستہ آہستہ تُو اے محوِ نظریہ رازِ خدوخال کیا جانے کہ بن جاتا ہے ہر چہرہ...
  10. شیزان

    سلیم احمد میرا چہرہ۔ سلیم احمد

    میرا چہرہ ایک قیافے کےماہر نے مجھ سےکہا گہری چالیں چلنا اور دنیاکو دھوکے میں رکھنا آسان نہیں ہے لیکن تو چاہے تو یہ کر سکتا ہے تیرا چہرہ اک ہنس مُکھ احمق کا چہرہ ہے سلیم احمد
  11. شیزان

    سلیم احمد گراموفون۔ سلیم احمد

    گراموفون میرےگھر میں ایک پُرانا گراموفون ہے بچّےاس سے کھیلا کرتے ہیں میں کبھی بیکاری کے لمحوں میں اس کو بجایا کرتا ہوں اکثراس کی سوئی اٹک جاتی ہے اور وہ ایک لفظ پر رک کر "میں" ہی "میں" دہرایا کرتا ہے سلیم احمد
  12. شیزان

    JUST A MINUTE۔ وصی شاہ

    JUST A MINUTE ذرا سا تو ٹھہر اے دل۔۔۔۔۔۔۔! ابھی کچھ کام باقی ہیں ابھی آنگن میں مجھ کو موتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں ابھی ان شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو مرے ہونٹوں پہ کھلنا ہے ابھی اس جسم نے مجھ سے بہت سی بات کرنی ہے ابھی اس دل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو مجھے اپنے بدن میں، روح...
  13. شیزان

    خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں۔ فاخرہ بتول

    خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں جو اپنے ہاتھ سے کچھ کر نہیں سکتے وہی کہتے ہیں اکثر یہ خُدا یہ کام کر دے گا ۔۔۔ خُدا وہ کام کر دے گا گِریں کے جب سنبھالے گا گلے سے وہ لگا لے گا ہمیں منزل کی جانب لے کے جائے گا ہمیں رستے کی ہر مشکل سے وہ خود ہی بچائے گا ہمیں‌ خود کچھ نہیں کرنا جو اس نے کر دیا...
  14. شیزان

    جون ایلیا عیش ِ اُمید ہی سے خطرہ ہے۔ جون ایلیا

    عیش ِ اُمید ہی سے خطرہ ہے دِل کو اب دِلدہی سے خطرہ ہے ہے کچھ ایسا کہ اُس کی جلوت میں ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے جس کی آغوش کا ہوں دیوانہ اُس کی آغوش ہی سے خطرہ ہے یاد کی دُھوپ تو ہے روز کی بات ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے ہے عجب کچھ معاملہ درپیش عقل کو آگہی سے خطرہ ہے شہرِ ِ غدار !جان لے کہ...
  15. شیزان

    اعتبار ساجد ہم اپنے آپ سے اتنی مروّ ت کر ہی لیتے ہیں

    ہم اپنے آپ سے اتنی مروّ ت کر ہی لیتے ہیں کبھی تنہائی میں خود کو ملامت کرہی لیتے ہیں انہیں الزام کیا دیں جن کے زہر آلود ہیں لہجے کہیں تھوڑی بہت ہم بھی غیبت کر ہی لیتے ہیں کبھی تیشہ بہ کف ہو کر، کبھی خامہ بہ کف ہو کر جو کرنا ہو ہمیں حسب ضرورت کر ہی لیتے ہیں کوئی ٹوٹا ہوا دل جوڑ دیتے ہیں محبت سے...
  16. شیزان

    اعتبار ساجد لو ، خدا حافظ تمہیں کہنے کی ساعت آ گئی

    لو ، خدا حافظ تمہیں کہنے کی ساعت آ گئی دل کو تھا جس بات کا دھڑکا، وہ نوبت آ گئی ٹوٹ کر برسی گھٹا تجھ سے جدا ہوتے ہوئے آسماں رونے لگا، بادل کو غیرت آ گئی اتفاقا جب کوئی تیرے حوالے سے ملا سامنے نظروں کے یکدم تیری صورت آ گئی گھر کے بام و در سمٹ کر مثلِ زنداں ہو گئے شام کیا آئی کہ جیسے مجھ میں...
  17. شیزان

    اعتبار ساجد اُس نے کہا کہ مجھ سے تمہیں کتِنا پیار ہے۔ اعتبار ساجد

    اُس نے کہا کہ مجھ سے تمہیں کتِنا پیار ہے میں نے کہا! ستاروں کا کوئی شُمار ہے اُس نے کہا کہ کون تمہیں ہے بہت عزیز! میں نے کہا کہ دِل پہ جِسے اِختیار ہے اُس نے کہا کہ کون سا تحفہ ہے من پسند میں نے کہا وہ شام، جو اب تک اُدھار ہے اُس نے کہا ! خزاں میں ملاقات کا جواز؟ میں نے کہا کہ قُرب کا مطلب...
  18. شیزان

    اعتبار ساجد نادم ہوں میں نے کوئی بھی راحت نہ دی تجھے۔ اعتبار ساجد

    نادم ہوں میں نے کوئی بھی راحت نہ دی تجھے تُو جس کا مستحق تھا، وہ چاہت نہ دی تجھے اپنے ہی روز و شب کے جھمیلوں میں گم رہا جس پر تِرا تھا حق، وہ رفاقت نہ دی تجھے تُو پاس تھا تو میری اَنا کے غرُور نے پتھر کے ایک بت کی بھی وقعت نہ دی تجھے دریا تھا میں خلُوص کا ہر شخص کے لیے پر بُوند بھر بھی میں...
  19. شیزان

    اعتبار ساجد کہا: تخلیق فن؟ بولے: بہت دشوار ہو گی۔ اعتبار ساجد

    کہا: تخلیق فن؟ بولے: بہت دُشوار تو ہو گی کہا: مخلُوق؟ بولے: باعثِ آزار تو ہو گی کہا: ہم کیا کریں اِس عہد ِناپُرساں میں، کچھ کہیے وہ بولے: کوئی آخر صُورت ِاظہار تو ہو گی کہا: ہم اپنی مرضی سے سفر بھی کر نہیں سکتے وہ بولے: ہر قدم پر اِک نئی دیوار تو ہو گی کہا: آنکھیں نہیں! اِس غم میں بینائی...
  20. شیزان

    چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے۔ اختر ضیائی

    چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے پل کی جھپک میں وصل کے ایام کٹ گئے اور مصلحت شناس تیرا کُھل گیا بھرم! لے ہم ہی تیرے پیار کے رستے سے ہٹ گئے پاسِ ادب کہ پاسِ مرّوت کہیں اسے اکثر لبوں تک آئے گِلے اور پلٹ گئے پائی نہ پھر بتوں نے وہ یکسانی الست رنگوں میں بٹ گئے کبھی شکلوں میں بٹ گئے گلشن میں چل...
Top