چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے۔ اختر ضیائی

شیزان

لائبریرین
چہرے کی دھوپ، زُلف کے سائے سمٹ گئے
پل کی جھپک میں وصل کے ایام کٹ گئے

اور مصلحت شناس تیرا کُھل گیا بھرم!
لے ہم ہی تیرے پیار کے رستے سے ہٹ گئے

پاسِ ادب کہ پاسِ مرّوت کہیں اسے
اکثر لبوں تک آئے گِلے اور پلٹ گئے

پائی نہ پھر بتوں نے وہ یکسانی الست
رنگوں میں بٹ گئے کبھی شکلوں میں بٹ گئے

گلشن میں چل گیا ہے بدلتی رُتوں کا سحر
نغمے ابل پڑے کبھی ملبوس پھٹ گئے

گزری چمن سے موجِ صبا ناچتی ہوئی
کانٹے مچل کے دامنِ گل سے لپٹ گئے

اختر وہ شوقِ دید کی لذت، وہ بےکلی!
آ کر گئے وہاں ، کبھی جا کر پلٹ گئے

اختر ضیائی
 

طارق شاہ

محفلین
سبحان الله !
کیا خوب کہی غزل شیئر کی ہے آپ نے
تشکّر ، اور بہت سی داد اس انتخاب کے لئے
بہت خوش رہیں صاحب :)
 
Top