خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں۔ فاخرہ بتول

شیزان

لائبریرین
خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں

جو اپنے ہاتھ سے کچھ کر نہیں سکتے
وہی کہتے ہیں اکثر یہ
خُدا یہ کام کر دے گا ۔۔۔ خُدا وہ کام کر دے گا
گِریں کے جب سنبھالے گا
گلے سے وہ لگا لے گا
ہمیں منزل کی جانب لے کے جائے گا
ہمیں رستے کی ہر مشکل سے وہ خود ہی بچائے گا
ہمیں‌ خود کچھ نہیں کرنا
جو اس نے کر دیا مقسوم وہ تو ہو کے رہنا ہے
تو پھر بےکار کی کوشش کریں ہم کیوں؟
ہمیں تو ہاتھ پر بس ہاتھ دھر کے بیٹھ جانا ہے
خُدا نے خود کِھلانا ہے ۔۔ خدا نے خود پلانا ہے
ہر اک منظر دکھانا ہے
گِرانا ہے، اٹھانا ہے
بنانا ہے، مٹانا ہے، مٹا کر پھر بنانا ہے
جو مرضی اس کی کر دے وہ
ہمیں خود کچھ نہیں کرنا
فقیری، بادشاہی اس کی جانب سے
اچھائی اور بُرائی اس کی جانب سے
بنا اس کی اجازت کے کوئی پتّہ نہیں ہلتا
اگر یہ ہی حقیقت ہے
تو پھر ہم “عدل“ کو کس جا پہ رکھیں گے؟
اگر ہر کام میں اس کی ہی بس،
اُس کی رضا کو مان لیں ہم تو
بنا اس کی اجازت کے اگر پتّہ نہیں ہلتا
جرائم میں شراکت اس کی ٹھہرے گی
تو ہر مجرم کہے گا یہ،
یہی مرضی خُدا کی ہے
سزا کس بات کی ہوگی؟
اگر نیکی کسی نے کی،
تو اُس میں اُس کی کیا خوبی؟
یہی مرضی خُدا کی ہے
یہاں تک کے جنت اور جہنم کا عقیدہ خام ٹھہرے گا
تو جنت کس کو، کس بُنیاد پر دو گے؟
جہنم کی سزا کس کے لیے ہوگی؟
زمیں میں جو بھی بوتا ہے، وہی شے کاٹتا بھی ہے
کسی کو تم نے چاول بو کے گندم کاٹتے دیکھا؟
یہی سچ ہے کہ وہ معبود ہے اپنا
ہمیں اس کے کرم کی ہر گھڑی، ہر جا ضرورت ہے
اُسے سجدے کریں تو نور پیشانی پہ کھلتا ہے
اور اس کو یاد کرنے سے سکوں سا دل کو ملتا ہے
وہ “کن“ کہہ کر جو چاہے کر دے پل بھر میں
وہی ہے ماؤں کے ارحام کے اندر بھی تصویریں بناتا ہے
وہی اوّل، وہی آخر
وہ کیا ہے اُس کا احاطہ کوئی بھی کر نہیں سکتا
مگر اک پل کو سوچو تو،
یہ سچ ہے پھول، پھل، پتے، شجر سارے
بنا اس کی رضا کے اُگ نہیں سکتے
مگر مالی کو بھی تو اپنی محنت کرنی پڑتی ہے
زمیں کا چیر کے سینہ ہر اک کونپل نکلتی ہے
مگر ہر بیج بونا ہے کسانوں کو،
پھر اس پر ہل چلانا ہے، پسینہ بھی بہانا ہے
خُدا کے ہی کرم سے بارشیں ہوں گی
زمیں میں رزق نکلے گا
جو اس نے لکھ دیا، دے گا مگر اس میں
ہمارے ہاتھ کی محنت بھی شامل ہے
کوئی بیمار ہوتا ہے
خُدا اس کو شفاء دے گا
مگر اس کو معالج کو دکھانے کی ضرورت ہے
وسیلہ جو بھی ہے اس میں کرم قدرت کا شامل ہے
خُدا کے تم خلیفہ ہو،
تمھیں بھی کچھ تو کرنا ہے
خُدا عالم بھی ہے اور علم بھی، اس کو تلاشو تم
عمل ہی علم کی سیڑھی ہے اس سے دُور مت جاؤ
خدا پر تم یقیں رکھو
مگر خود کو کبھی بیکار مت جانو
خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں
اُسے وہ کام کرنے دو

(کرسٹینا لیمب کی تصنیف " Waiting for Allah " کے ری ایکشن میں)


فاخرہ بتول
 

محب اردو

محفلین
خُدا کو اور بھی کچھ کام کرنے ہیں
میرے ناقص علم کے مطابق باقی ساری نظم درست اور عمدہ ہے لیکن اقتباس شدہ جملے بالکل بھی اللہ مالک الملک کے شایان شان نہیں ۔
اس طرح کے تصورات مخلوق کے بارے میں ہوتے ہیں خالق ان پابندیوں سے بالکل بری ہے ۔
جناب محمد اسامہ سَرسَری یوسف-2 مزمل شیخ بسمل اور دیگر معززین محفل ۔
 
میرے ناقص علم کے مطابق باقی ساری نظم درست اور عمدہ ہے لیکن اقتباس شدہ جملے بالکل بھی اللہ مالک الملک کے شایان شان نہیں ۔
اس طرح کے تصورات مخلوق کے بارے میں ہوتے ہیں خالق ان پابندیوں سے بالکل بری ہے ۔
جناب محمد اسامہ سَرسَری یوسف-2 مزمل شیخ بسمل اور دیگر معززین محفل ۔

محب بھائی
بات جملے کی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان نے اللہ کے تصور کو جو یکسر بدل ڈالا ہے اسکے مطابق مجھے اس جملے میں کوئی خامی محسوس نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی اللہ کی قدرت سے بے نیاز ہو کر ایسا کوئی جملہ کہے تو قابل گرفت ہوگا۔ یہاں عبارتی لحاظ سے یہ جملہ قابل گرفت نہیں۔
اقبالؒ دیکھو کیا کہتے ہیں:
کبھی اپنوں سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو(خدا) بھی تو ہرجائی ہے

امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔
 
آخری تدوین:

محب اردو

محفلین
محب بھائی
بات جملے کی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان نے اللہ کے تصور کو جو یکسر بدل ڈالا ہے اسکے مطابق مجھے اس جملے میں کوئی خامی محسوس نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی اللہ کی قدرت سے بے نیاز ہو کر ایسا کوئی جملہ کہے تو قابل پکڑ ہوگا۔ یہاں عبارتی لحاظ سے یہ جملہ قابل پکڑ نہیں۔
قابل قدر شاعر شیزان سے پوچھتے ہیں کہ ان کی مراد یہاں کیا ہے ؟

اقبالؒ دیکھو کیا کہتے ہیں:
کبھی اپنوں سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔
مزید وضاحت کی ضرورت ہے ۔
مزید اصحاب دانش کو دعوت دیتے ہیں
گرامی قدر الف عین محمد یعقوب آسی محمد خلیل الرحمٰن محمد وارث محمود احمد غزنوی
 

طارق شاہ

محفلین
قابل قدر شاعر شیزان سے پوچھتے ہیں کہ ان کی مراد یہاں کیا ہے ؟


مزید وضاحت کی ضرورت ہے ۔
مزید اصحاب دانش کو دعوت دیتے ہیں
گرامی قدر الف عین محمد یعقوب آسی محمد خلیل الرحمٰن محمد وارث محمود احمد غزنوی
اس کے بعد کیا کریں گے آپ ؟
مقدمہ دائر کریں گے یا فتوہ دلوائیں گے

بھائی ! آپ نے اپنا خیال یا نکتہ نظر تو لکھ ہی دیا
:):)
 
آخری تدوین:

محب اردو

محفلین
اس کے بعد کیا کریں گے آپ ؟
مقدمہ دائر کریں گے یا فتوہ دلوائیں گے

بھائی ! آپ نے اپنا خیال یا نکتہ نظر تو لکھ ہی دیا
:):)
مقدمہ دائر کرنے یا فتوی لگانے کے سوا بھی کسی صاحب علم کا نقطہ نظر سمجھنے کی اجازت ہے یانہیں ؟
 
محب بھائی
بات جملے کی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان نے اللہ کے تصور کو جو یکسر بدل ڈالا ہے اسکے مطابق مجھے اس جملے میں کوئی خامی محسوس نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی اللہ کی قدرت سے بے نیاز ہو کر ایسا کوئی جملہ کہے تو قابل پکڑ ہوگا۔ یہاں عبارتی لحاظ سے یہ جملہ قابل پکڑ نہیں۔
اقبالؒ دیکھو کیا کہتے ہیں:
کبھی اپنوں سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو(خدا) بھی تو ہرجائی ہے

امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔
قابل قدر شاعر شیزان سے پوچھتے ہیں کہ ان کی مراد یہاں کیا ہے ؟


مزید وضاحت کی ضرورت ہے ۔
مزید اصحاب دانش کو دعوت دیتے ہیں
گرامی قدر الف عین محمد یعقوب آسی محمد خلیل الرحمٰن محمد وارث محمود احمد غزنوی

ابھی کچھ دن پہلے ہم نے اسی موضوع پر ایک گفتگو میں اسی شعر کا حوالہ دیا کہ یہی بات اگر نثر میں کہی جاتی تو یقینآ قابلِ گرفت ہوتی لیکن شعر میں یہی بات شاعرانہ تعلی کے زمرے میں آئے گی۔
مزید یہ کہ شاعر کے خیالات اس خدائے برتر کے لیے نہیں جس نے ہم سب کو، اس کائینات کو پیدا کیا بلکہ یہ تو اس خدا کے بارے میں ہے جسے انسان نے اپنے معبود کے طور پر گھڑ لیا۔ امید ہے اس مختصر سے پیراگراف میں ہم اپنا مطلب بیان کرپائے ہوں۔
 
محب اردو صاحب ٹیگ کرنے کیلئے شکریہ۔ لیکن مجھے آپکے دئے گئے اقتباس میں کوئ بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔۔۔۔آپ ذرا سورہ رحمٰن کی اس آیت پر بھی غور کیجئے گا۔۔۔سنفرغ لكم أيها الثقلان
میرے ناقص علم کے مطابق باقی ساری نظم درست اور عمدہ ہے لیکن اقتباس شدہ جملے بالکل بھی اللہ مالک الملک کے شایان شان نہیں ۔
اس طرح کے تصورات مخلوق کے بارے میں ہوتے ہیں خالق ان پابندیوں سے بالکل بری ہے ۔
جناب محمد اسامہ سَرسَری یوسف-2 مزمل شیخ بسمل اور دیگر معززین محفل ۔
 

طارق شاہ

محفلین
مقدمہ دائر کرنے یا فتوی لگانے کے سوا بھی کسی صاحب علم کا نقطہ نظر سمجھنے کی اجازت ہے یانہیں ؟
میرے خیال میں اگر ایسے معاملات میں دلچسپی ہو یا معلومات سے خود کو بہرہ ور یا مستفید کرنا ہو تو
آن لائن بہت سا مواد مل جائے گا، تفہیم اشعار کیوں کہ سب پر یکساں نہیں اس لئے اس کی شرح بھی یکساں نہیں ہوگی
مذہبی معاملات کو اشعار سے سلجھانا یا اشعار سے ایسے معنی یا معاملات نکالنا بھی سب کا ایک جیسا نہیں اس لئے
اس کو بہت سے خارج از بحث ہی قرار دیتے ہیں ۔
اگر قران با ترجمہ سُن یا پڑھ لیا جائے (خواہ روزانہ ہی تھوڑا تھوڑا) تو نہ یہ کہ کچھ ہی عرصہ میں انسان زندگی کے
ہر معاملے پر پیش آئے دشواری یا لاعلمی کا حل کسی سے رجوع کئے بغیر ہی حاصل کرلیتا ہے
جاننا ، معلوم کرنا انسان کی سرشت میں ہے ، انسان متجسس ہی پیدا ہوا ہے ۔ اور آپ کو بھی یہ حق حاصل ہے بھائی
مقصد آپ کو روکنا نہیں ، حساس معاملے میں بے حرمتی یا دل آزاری کا عنصر پیش نظر تھا :)

بہت خوش رہیں :):)
 

محب اردو

محفلین
محب اردو صاحب ٹیگ کرنے کیلئے شکریہ۔ لیکن مجھے آپکے دئے گئے اقتباس میں کوئ بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔۔۔ ۔آپ ذرا سورہ رحمٰن کی اس آیت پر بھی غور کیجئے گا۔۔۔ سنفرغ لكم أيها الثقلان
آپ کے توجہ دلانے پر ایک تفسیر دیکھنے سے یہ معلومات ملی ہیں :
قال الزجاج والكسائي وابن الأعرابي وأبو علي الفارسي: إن الفراغ ههنا ليس هو الفراغ من شغل، لأن الله تعالى ليس له شغل يفرغ منه، ولا يشغله شأن عن شأن، ولكن تأويله القصد، أي سنقصد لحسابكم أو مجازاتكم أو محاسبتكم.
قال الواحدي حاكياً عن المفسرين ومنهم ابن عباس: إن هذا تهديد من الله سبحانه لعباده ومن هذا قول القائل لمن يريد تهديده: إذن أتفرغ لك (فتح البیان ج 13 ص 328 )

مفہوم یہ ہے کہ آیت میں فراغت سےمراد کسی مصروفیت سے فارغ ہونا نہیں کیونکہ اللہ کے ہاں کوئی ایسا کام نہیں جس سے فارغ ہونے کی ضرورت پیش آئے اور نہ ہی اللہ تعالی کو ایک حالت دوسری سے مصروف رکھ سکتی ہے ۔ آیت میں ’’ فراغ ’’ سے مراد قصد کرنا ہے تو معنی یوں ہوں گے : ہم تمہارے حساب و کتاب اور جزاء وسزا کا ارادہ کریں گے ۔
 

محب اردو

محفلین
میرے خیال میں اگر ایسے معاملات میں دلچسپی ہو یا معلومات سے خود کو بہرہ ور یا مستفید کرنا ہو تو
آن لائن بہت سا مواد مل جائے گا، تفہیم اشعار کیوں کہ سب پر یکساں نہیں اس لئے اس کی شرح بھی یکساں نہیں ہوگی
مذہبی معاملات کو اشعار سے سلجھانا یا اشعار سے ایسے معنی یا معاملات نکالنا بھی سب کا ایک جیسا نہیں اس لئے
اس کو بہت سے خارج از بحث ہی قرار دیتے ہیں ۔
اگر قران با ترجمہ سُن یا پڑھ لیا جائے (خواہ روزانہ ہی تھوڑا تھوڑا) تو نہ یہ کہ کچھ ہی عرصہ میں انسان زندگی کے
ہر معاملے پر پیش آئے دشواری یا لاعلمی کا حل کسی سے رجوع کئے بغیر ہی حاصل کرلیتا ہے
جاننا ، معلوم کرنا انسان کی سرشت میں ہے ، انسان متجسس ہی پیدا ہوا ہے ۔ اور آپ کو بھی یہ حق حاصل ہے بھائی
مقصد آپ کو روکنا نہیں ، حساس معاملے میں بے حرمتی یا دل آزاری کا عنصر پیش نظر تھا :)

بہت خوش رہیں :):)
حسن اخلاق سے پیش آنے پر بہت بہت شکریہ ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے کو کہا کرتے تھے آؤ دین کے متعلق باتیں کریں تاکہ ہمارے ایمان میں اضافہ ہو ۔
آج ہماری مجلسوں میں دنیا جہاں کی باتیں ہوتی ہیں ہر قسم کے کاروباری مشورے ہوتے ہیں لیکن دینی مسائل کے بارےمیں ہم بحث کرنا پسند نہیں کرتے الا ماشاء اللہ اور اگر کوئی کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے قولا یا فعلا ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے کہ دوبارہ ایسی نوبت نہیں آتی ۔
کسی معزز آدمی کی بیٹھک یا دکان میں جاکر بیٹھ جائیں وہ چائے ، پانی اور دیگر ضروریات کے بارے میں پوچھے گا رہنمائی کرے گا لیکن یہ نہیں کہے گا کہ بھائی اذان ہوگئی ہے آؤ چلیں یا فلاں جگہ مسجد ہے ۔
آپ نے بجا فرمایا کہ قرآن وسنت کا خود بھی مطالعہ کرنا چاہیے اور انٹرنیٹ پر بھی اس سلسلے میں کافی مواد موجود ہے لیکن دین کے لیے یہی کچھ کافی نہیں بلکل اسی طرح جس طرح باقی دنیاوی مسائل کے بارے میں بھی معلومات وافر ہیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے سے رہنمائی لیتے ہیں ۔
یہ بھی آپ نے درست فرمایا کہ دینی معاملات میں بات کرنا بڑی احتیاط کا متقاضی ہے تو احتیاط ضرور کرنی چاہیے اہل علم سے استفادہ کرنا چاہیے لیکن یہ کسی طور درست معلوم نہیں ہوتا کہ ہم احتیاط کے نام پر دینی مسائل میں دلچسپی سے گریز کریں ۔
 
محب بھائی
بات جملے کی نہیں۔ بات یہ ہے کہ انسان نے اللہ کے تصور کو جو یکسر بدل ڈالا ہے اسکے مطابق مجھے اس جملے میں کوئی خامی محسوس نہیں ہوتی۔ ہاں اگر کوئی اللہ کی قدرت سے بے نیاز ہو کر ایسا کوئی جملہ کہے تو قابل پکڑ ہوگا۔ یہاں عبارتی لحاظ سے یہ جملہ قابل پکڑ نہیں۔
اقبالؒ دیکھو کیا کہتے ہیں:
کبھی اپنوں سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو(خدا) بھی تو ہرجائی ہے

امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔

اس میں اقبال کے حوالے سے دو باتیں ہیں۔
اول: نظم ’’شکوہ‘‘ میں اقبال نے خالص اپنے افکار بیان نہیں کئے بلکہ اپنے دور کی نمایاں تشکیکات کو نظم کیا ہے۔ اس کے افکار ’’جواب شکوہ‘‘ میں ہیں!
دوم: اگر بفرضِ محال منقولہ بالا شعر اقبال کی اپنی فکر ہو، تو بھی ایمانیات کی بنیاد کتاب اللہ ہے، نہ کہ ’’بانگَ درا‘‘۔

اللہ اور بندے کے تعلق کے حوالے سے (خاص طور پر ہم لوگوں کو جو مسلمان ہونے کا دعوٰے رکھتے ہیں) کسی شوخی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ کی گرفت بہت سخت ہے!

پس نوشت: ’’قابلَ پکڑ‘‘ درست فرما لیجئے گا۔
 
آخری تدوین:
اس میں اقبال کے حوالے سے دو باتیں ہیں۔
اول: نظم ’’شکوہ‘‘ میں اقبال نے خالص اپنے افکار بیان نہیں کئے بلکہ اپنے دور کی نمایاں تشکیکات کو نظم کیا ہے۔ اس کے افکار ’’جواب شکوہ‘‘ میں ہیں!
دوم: اگر بفرضِ محال منقولہ بالا شعر اقبال کی اپنی فکر ہو، تو بھی ایمانیات کی بنیاد کتاب اللہ ہے، نہ کہ ’’بانگَ درا‘‘۔

اللہ اور بندے کے تعلق کے حوالے سے (خاص طور پر ہم لوگوں کو جو مسلمان ہونے کا دعوٰے رکھتے ہیں) کسی شوخی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ کی گرفت بہت سخت ہے!

پس نوشت: ’’قابلِ پکڑ‘‘ درست فرما لیجئے گا۔

جی۔ قابلِ گرفت بات کی نشاندہی فرمائی آپ نے۔ جزاک اللہ۔
 
Top