سلیم احمد فضا لیتی ہے ہر شے کا حساب آہستہ آہستہ۔ سلیم احمد

شیزان

لائبریرین
فضا لیتی ہے ہر شے کا حساب آہستہ آہستہ
اُترتے ہیں زمینوں پر عذاب آہستہ آہستہ

سبب یا مصلحت کُھلتی نہیں لیکن یہ حیرت ہے
جرائم تیز تر اور احتساب آہستہ آہستہ

کسی کو کیا ،دلوں کو بھی خبرہونے نہیں پاتی
بدل جاتی ہے چشمِ انتخاب آہستہ آہستہ

تُو اے محوِ نظریہ رازِ خدوخال کیا جانے
کہ بن جاتا ہے ہر چہرہ نقاب آہستہ آہستہ

یہ تیرے اہل دنیا صرف بیداری کے قائل ہیں
بتا دے ان کو بھی ناموسِ خواب آہستہ آہستہ

پتا چلتا نہیں اب کون سا ٹکڑا کہاں کا ہے
کہ گڈ مڈ ہو گئے تعبیر و خواب آہستہ آہستہ

کشش گھر کہ بُلائے گی تو کُوے نامرادی سے
پلٹ کر آئیں گے خانہ خراب آہستہ آہستہ

طلب نے خود ہی پیدا کی ہے یہ دنیا سوالوں کہ
طلب ہی ڈھونڈ لے گی خود جواب آہستہ آہستہ

زمیں سے دور تر ہو کر کہیں تارا نہ بن جائے
بلندی کی ہوس میں آفتاب آہستہ آہستہ



سلیم احمد
 
Top