سلیم احمد پرسشِ التفات سے اور قلق سوا ہُوا۔ سلیم احمد

شیزان

لائبریرین

پرسشِ التفات سے اور قلق سوا ہُوا
حرفِ تپاکِ حسن میں زہر سا تھا ملا ہُوا

یوں بھی ہزار خواہشیں باعثِ اضطراب تھیں
اور تری جدائی کا زخم بھی تھا لگا ہُوا

موت کی طرح دفعتاً ساعتِ ہجر آئی تھی
جیسے چراغ جل بجھ،ے مجھ سے وہ یوں جُدا ہُوا

میرا ملال بے سبب تجھ پہ کہیں گراں نہ ہو
آج نہ مِل کہ آج تو دل ہے بہت دُکھا ہُوا

آئینہ خانہٴ جہاں میرے لیئے وبال ہے
نکلا تیری تلاش میں ، اپنا ہی سامنا ہُوا

زر و تمام برگ تھے، سارے نشانِ مرگ تھے
ایسی گھٹا برس پڑی ، باغ مرا ہرا ہُوا

بادِ بہارِ شوق نے پُھول نئے کھلا دیے
روح کی تازگی نہ پوچھ، سارا بدن نیا ہُوا


سلیم احمد
 

کاشفی

محفلین
موت کی طرح دفعتاً ساعتِ ہجر آئی تھی
جیسے چراغ جل بجھ،ے مجھ سے وہ یوں جُدا ہُوا

بہت خوب!
 
Top