شیزان
لائبریرین
فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا
بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا
دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا
تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل
تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا
تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا
گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا
میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا
محسن اب اُس کا نام ہے سب کی زبان پر
کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا
کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا
محسن نقوی