شفیق خلش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے یوں گنوادی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے گِریں فُرقِ...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے تو سمجھ لینا کہ کچھ روز ہی میں ہم نہ رہے ظاہر اِس چہرے پہ کُچھ درد، کوئی غم نہ رہے مکر میں ماہر اب ایسا بھی کبھی ہم نہ رہے کرب سینے کا اُمڈ آئے نہ آنکھوں میں کبھی خوگر آلام کے اِتنے بھی ابھی ہم نہ رہے کب وہ عالم نہ رہا دیس سا پردیس...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو ذرا یہ فکرمحبّت میں تیری، دل کو نہیں عنایتوں سے تِری زیربار ہو کہ نہ ہو ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی نہ مِلا کبھی کوئی رّدِ غم ، نہ ہی لب پہ آ کے ہنسی رہی کبھی خلوتوں میں بھی روز و شب تِری بزم جیسے سجی رہی کبھی یوں ہُوا کہ ہجوم میں، مجھے پیش بے نفری رہی سبھی مُشکلیں بھی عجیب تھیں رہِ وصل آ جو ڈٹی رہِیں نہ نظر میں اِک، نہ...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلِش ::::: اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلِش اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو وہ کڑی دُھوپ میں رحمت کا ہے سایا دِل کو جتنا جتنا بھی مُصیبت سے بچایا دِل کو اُتنا اُتنا ہی مُصیبت میں ہے پایا دِل کو اِس نہج، اُس سے مِرا عِشق ہے لایا دِل کو جب تصوّر رہا، مجذُوب سا پایا دِل کو غم سے مدہوشی پہ بہلا کے جو لایا دِل کو...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے کچھ نہ شِکوے بھی آسماں سے رہے پَل کی فرقت نہ ہو گوارا جسے دُور کیسے وہ دِل بُتاں سے رہے سوچتے ہیں اب اُن حسینوں کو جن کی قربت میں شادماں سے رہے اُس کی یادوں نے کی پذیرائی درد دِل میں جو بےکراں سے رہے دُوریاں اُس پہ اِک قیامت ہیں دِل جو...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا تھا یگانہ بھی تو شاعر اُس عظیم آباد کا طرز اپنایا سُخن میں جب بھی میں نے شاد کا میرے شعروں پر گمُاں ٹھہرا کسی اُستاد کا یا الہیٰ ! شعر میں ایسی فصاحت دے، کہ میں نام روشن کرسکوُں اپنے سبھی اجداد کا دِل بدل ڈالا ہے اپنا اُس نے پتّھر...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے گزُرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے کیوں نااُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب ! اِک عُمر گزُری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے کردی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی اُمّیدِ وصل اِس کا...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: اِس کا نہیں مَلال، کہ سونے نہیں دِیا ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خَلِش اِس کا نہیں ملال، کہ سونے نہیں دِیا تنہا تِرے خیال نے ہونے نہیں دِیا پیش آئے اجنبی کی طرح ہم سے جب بھی وہ کچھ ضبط، کچھ لحاظ نے رونے نہیں دِیا چاہا نئے سِرے سے کریں زندگی شروع یہ تیرے اِنتظار نے ہونے نہیں دِیا طاری ہے زندگی پہ مِری مستقل ہی رات دِن تیرے ہجر نے کبھی...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے اُمیدِ وصل ہے جس نے مجھے سنبھالا ہے جو تم نہیں ہو، تو ہے زندگی اندھیروں میں مِرے نصیب میں باقی کہاں اُجالا ہے سکوت مرگ سا طاری تھا اک زمانے سے یہ کِس کی یاد نے پھر دِل مِرا اُچھالا ہے رہا نہ کوئی گلہ اب وطن کے لوگوں سے یہاں بھی خُوں...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: دل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے ::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلش دِل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے عِشق جب صُحبتِ بُتاں سے رہے لاکھ سمجھا لِیا بُزرگوں نے ! دُورکب ہم طِلِسمِ جاں سے رہے کب حَسِینوں سے عاشقی نہ رہی کب نہ ہونٹوں پہ داستاں سے رہے دِل میں ارمان کُچھ نہیں باقی اِک قدم آگے ہم زماں سے رہے دِل میں حسرت کوئی بھی باقی ہو ایسے جانے...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں، ہم نہ کہتے تھے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں ہم نہ کہتے تھے ہُوا وِیراں نگر شہرِ نِگاراں، ہم نہ کہتے تھے رہو گے شہر میں اپنے ہراساں، ہم نہ کہتے تھے تمھارے گھررہیں گے تم کوزنداں ہم نہ کہتے تھے نہ پاؤگے کسے بھی دُور تک، یوں بیکسی ہوگی! ہراِک سے مت رہو دست وگریباں ہم نہ کہتے تھے بشر کی زندگی...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہوکر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ہوکر رہے ہیں جب مِرے ہر کام مختلف ہوجائیں روز و شب کے بھی ایّام مختلف شام و سحر یہ دیں مجھے دُشنام مختلف کیا لوگ ہیں، کہ روز ہی اِلزام مختلف پہلےتھیں اِک جَھلک کی، یا مِلنے کی مِنّتیں آتے ہیں اُن کے اب مجھے پیغام مختلف دِل پھر بضد ہے لوٹ کے جانے پہ گھر وہی شاید لِکھا ہے...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: اُمید تھی تو، اگرچہ نہ تھی عیاں بالکل ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش اُمید تھی تو، اگرچہ نہ تھی عیاں بالکل ہُوئی کِرن وہی دِل کی ہے اب نہاں بالکل کِھلے نہ پُھول ہیں دِل میں، نظردُھواں بالکل بہار آئی بھی بن کر خَلِش، خِزاں بالکل کہا ہے دِل کی تسلّی کو بارہا خود سے ہم اُن کو بُھول چُکے ہیں، مگرکہاں بالکل جو اُٹھتے دستِ زلیخا ہمارے دامن پر نہ...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: ہمارے من میں بَسے جو بھی روگ ہوتے ہیں ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش ہمارے من میں بسے جو بھی روگ ہوتے ہیں شریر کے کسی بندھن کا سوگ ہوتے ہیں جو لاگ، بیر کسی سے بھی کُچھ نہیں رکھتے وہی تو دہر میں سب سے نِروگ ہوتے ہیں بُرا، بُرے کو کسی دھرم کا بنا دینا بَھلے بُرے تو ہراِک میں ہی لوگ ہوتے ہیں پریمیوں کے محبّت میں ڈوبے من پہ کبھی دُکھوں کے...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا ! ورُود غم...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے ::::: Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلش اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں ! جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: وہی دِن، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے ::::: Shafiq Khalish

    غزلِ شفیق خلش وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے وہ بھی یاد جس...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::: راتوں کو صُبح جاگ کے کرنا کہاں گیا ::::: Shafiq Khalish

    شفیق خلش راتوں کو صُبْح جاگ کے کرنا کہاں گیا آہیں وطن کی یاد میں بھرنا کہاں گیا اُجڑے چمن میں اب بھی تمنّا بہار کی جو حسرتوں میں تھا کبھی مرنا کہاں گیا بھیجا ہے میری بُھوک نے مجھ کو وطن سے دُور مرضی سے اپنی میں کبھی ورنہ کہاں گیا سب یہ سمجھ رہے ہیں یہاں میں خوشی سے ہُوں خوشیوں میں غم...
Top