ساغر صدّیقی

  1. سردار محمد نعیم

    اے کاش وہ دن کب آئیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے

    اے کاش وہ دن کب آئیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے دامن میں مرادیں لائیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں گے بیتابی الفت کی دھن میں ہم دیدہ ودل کے بربط پر توحید کے نغمے گائیں گے جب ہم مدینہ جائیں گے تھامیں گے سنہری جالی کو چومیں گے معطر پردوں کو قسمت کو ذرا سلجھائیں گے جب ہم بھی مدینہ جائیں‌گے زم زم...
  2. سردار محمد نعیم

    یہ کہتی ہیں فضائیں ، زندگی دو چار دن کی ہے

    یہ کہتی ہیں فضائیں، زندگی دو چار دن کی ہے مدینہ دیکھ آئیں، زندگی دو چار دن کی ہے سنہری جالیوں کو چُوم کر کچھ عرض کرنا ہے مچلتی ہیں دُعائیں، زندگی دو چار دن کی ہے غمِ انساں کی اِک صُورت عبادت خیز ہوتی ہے کِسی کے کام آئیں، زندگی دوچار دن کی ہے وہ راہیں ثبت ہیں جن پر نشاں پائے محمد صلی...
  3. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی غزل : فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں - ساغر صدیقی

    غزل فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں الفاظ سو گئے ہیں کاغذ کے پیرہن میں ہر آن ڈس رہی ہیں ماضی کی تلخ یادیں محسوس کر رہا ہوں بے چارگی وطن میں ٹکڑا کوئی عطا ہو احرامِ بندگی کا سُوراخ پڑ گئے ہیں اخلاص کے کفن میں اے پاسبانِ گُلشن تجھ کو خبر نہیں ہے شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں اے...
  4. کاشف اختر

    ساغر صدیقی موج در موج کناروں کو سزا ملتی ہے ۔ غزل از ساغر صدیقی

    موج در موج کناروں کو سزا مِلتی ہے کوئی ڈوبے تو سہاروں کو سزا مِلتی ہے میکدے سے جو نکلتا ہے کوئی بے نشہ چشمِ ساقی کے اشاروں کو سزا مِلتی ہے آپ کی زُلفِ پریشاں کا تصّور توبہ نگہت و نُور کے دھاروں کو سزا مِلتی ہے جب وہ دانتوں میں دباتے ہیں گلابی آنچل کتنے پُرکیف نظاروں کو سزا مِلتی ہے...
  5. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ہر مرحلہِ شوق سے لہرا کے گُزر جا - ساغرصدیقی

    ہر مرحلہِ شوق سے لہرا کے گُزر جا آثارِ تلاطم ہوں تو بل کھا کے گُزر جا بہکی ہوئی مخمور گھٹاؤں کی صدا سُن فردوس کی تدبیر کو بہلا کے گُزر جا مایوس ہیں احساس کی اُلجھی ہوئی رائیں پائل دلِ مُجبور کی چھنکا کے گُزر جا یزدان و اہرمن کی حکایات کے بدلے انساں کی روایات کو دُہرا کے گُزر جا کہتی ہیں...
  6. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی میں کہ آشفتہ و رُسوا سرِ بازار ہوا - ساغر صدیقی

    میں کہ آشفتہ و رُسوا سرِ بازار ہوا چاکِ داماں کا تماشا سرِ بازار ہُوا تیری عصمت کی تجارت پسِ دیوار سہی میری تقدیر کا سَودا سرِ بازار ہُوا پھر کوئی اہلِ جنوں دار پہ چڑھ جائے گا پھر تِرے حُسن کا چرچا سرِ بازار ہُوا ہم نے رکھا ہے اسے دِل کے مکاں میں برسوں جو کبھی ہم سے شناسا سرِ بازار ہُوا...
  7. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ہوا مہکی مہکی فضا بھیگی بھیگی - ساغر صدیقی

    ہوا مہکی مہکی فضا بھیگی بھیگی چلو آج مانگیں دعا بھیگی بھیگی کسی کی بہکتی ہوئی تشنگی نے بہاروں کو دے دی سزا بھیگی بھیگی گھٹاؤں کو رحمت کی جوش آ گیا کوئی ہو گئی ہے خطا بھیگی بھیگی ذرا صندلیں ہاتھ نزدیک لاؤ سلگنے لگی ہے حنا بھیگی بھیگی حصارِ تمنا میں دم گھٹ رہا ہے ذرا چھیڑ مطرب نوا بھیگی...
  8. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی بازارِ آرزو کی نوا دام چڑھ گئے - ساغر صدیقی

    بازارِ آرزو کی نوا دام چڑھ گئے ہر چیز قیمتوں سے سوا دام چڑھ گئے ہے غازہِ بہار سے محروم ان دنوں مخمور گیسوؤں کی گھٹا دام چڑھ گئے اب قرضِ مے بحال ہو مشکل سے دوستو کہتی ہے میکدے کی فضا دام چڑھ گئے بے چین سُرخ سُرخ لبوں کی فصاحتیں ہیں نکہتوں سے رنگ خفا دام چڑھ گئے مریخ اور زہرہ کئی قیمتوں کے...
  9. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی بدنامیِء حیات سے رنجور ہو گئے - ساغر صدیقی

    بدنامیِء حیات سے رُنجور ہو گئے اے یار! تیری بات سے رُنجور ہو گئے یزداں کے حادثات پہ ہم نے کیا یقین اپنی شکستِ ذات سے رُنجور ہو گئے مرجھا کے رہ گئی غمِ دشنام کی بہار فصلِ تکلفات سے رُنجور ہو گئے ہر رہگزر پہ چور ہیں انسانیت کے پاؤں شیشے کی کائنات سے رُنجور ہو گئے اپنوں نے زندگی میں ہراساں...
  10. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے - ساغر صدیقی

    موجیں ہیں اور بادہ گساروں کے قافلے رقصاں ہیں مست مست کناروں کے قافلے یُوں کاروانِ زیست رَواں ہیں کے ساتھ ساتھ رفتار میں ہیں بادہ گساروں کے قافلے پَلکوں پہ جم رہی ہیں غمِ زندگی کی اوس بانہوں میں سو گئے ہیں سہاروں کے قافلے اُس عنبریں سی زُلفِ پریشاں کو دیکھ کَر بیتاب ہو گئے ہیں چناروں کے قافلے...
  11. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی تم نے جو چاہا تھا دنیا بن گئی - ساغر صدیقی

    تم نے جو چاہا تھا دنیا بن گئی آگ تھی پھولوں کا گجرا بن گئی رات کچھ یوں مائلِ نغمہ تھا دل چاندنی سازِ تمنا بن گئی میرے جامِ مے سے اُڑ کر اک چھنیٹ صبح کے ماتھے کا قشقہ بن گئی جب کسی صورت نہ عنواں مل سکا آرزو بے نام صحرا بن گئی زندگی کی بات ساغرؔ کیا کہیں اک تمنا تھی تقاضا بن گئی ساغر صدیقی
  12. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی گل ہوئی شمعِ شبستاں چاند تارے سو گئے - ساغر صدیقی

    گل ہوئی شمعِ شبستاں چاند تارے سو گئے موت کے پہلو میں شامِ غم کے مارے سو گئے بے قراری میں بھی اکثر درد مندانِ جنوں اے فریبِ آرزو تیرے سہارے سو گئے کاروبارِ گرمئ دوراں کی ٹھنڈی راکھ میں اے شگوفوں کے خداوندو! شرارے سو گئے دے رہی ہے آج بھی موجِ حوادث لوریاں شورشِ طوفاں سے گھبرا کے کنارے سو گئے...
  13. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ان بہاروں پہ گُلستاں پہ ہنسی آتی ہے - ساغر صدیقی

    ان بہاروں پہ گُلستاں پہ ہنسی آتی ہے دل کے ہر داغِ فروزاں پہ ہنسی آتی ہے آج پھر جام تہی اور گھٹا اُٹھی ہے آج پھر رحمتِ یزداں پہ ہنسی آتی ہے آپ کی زلفِ پریشاں کے تصور میں ہمیں بارہا گردشِ دوراں پہ ہنسی آتی ہے میری بھیگی ہوئی پلکوں کی چَھما چَھم پہ نہ جا تیرے ٹوٹے ہوئے پیماں پہ ہنسی آتی ہے...
  14. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی کچھ علاجِ وحشتِ اہلِ نظر بھی چاہیے - ساغرؔ صدیقی

    کچھ علاجِ وحشتِ اہلِ نظر بھی چاہیے ایک پتھر بر دُکانِ شیشہ گر بھی چاہیے نامکمّل ہے سقوطِ کاروں کی داستاں اس میں تھوڑا سا بیانِ راہبر بھی چاہیے جن کے دامن میں دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں ان غریبوں کی دعاؤں میں اثر بھی چاہیے گلستانِ آرزو کے انقلابی دور میں ایک جشنِ موسمِ برق و شرر بھی...
  15. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی انسان بدنصیب، مقدّر کی بات ہے - ساغر صدیقی

    انسان بدنصیب، مقدّر کی بات ہے گُل کو ملے صلیب، مقدّر کی بات ہے اہلِ جنوں کے ہاتھ میں دونوں جہاں کی باگ خطرے میں ہے غریب ، مقدّر کی بات ہے زخمِ بہار بن گئی پُھولوں کی آرزو سارا چمن رقیب ، مقدّر کی بات ہے اہلِ چمن کو لنکتِ ماحول کھا گئی ہر بے نوا خطیب ، مقدّر کی بات ہے زخموں کو...
  16. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی وُسعتِ کیُسوئے جاناں سے اُلجھ بیٹھے ہیں - ساغر صدیقی

    وُسعتِ کیُسوئے جاناں سے اُلجھ بیٹھے ہیں صورتِ گردشِ دوراں سے اُلجھ بیٹھے ہیں مدحتِ بادۃِ انگور کی خاطر ساقی رِند اک صاحبِ ایماں سے اُلجھ بیٹھے ہیں چند نغمے جو مرے سازِ جنوں نے چھیڑے مستیِ چشمِ غزالاں سے اُلجھ بیٹھے ہیں آج گمنامیِ احساس کا پرچم لے کر آدمی شہرتِ یزداں سے اُلجھ بیٹھے...
  17. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے - ساغر صدیقی

    چمن لُٹ رہا ہے صبا رو رہی ہے پئے سوگواراں فضا رو رہی ہے شہادت پہ اکبرؓ کی ساری خدُائی گریباں کُھلے ہیں وفا رو رہی ہے فرشتے سرِ عرش ماتم کناں ہیں کہ پیاسوں کی خاطر گھٹا رو رہی ہے ذرا خاکِ کربل کی توقیر دیکھو کہ بنتِ نبی ْ کی ردا رو رہی ہے وہ شبیرؓ آئے ہیں نیزے کی زد پر تڑپتی ہیں کر نیں‘ ضیا...
  18. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے - ساغر صدیقی

    جفا و جور کی دنیا سنوار دی ہم نے زہے نصیب کہ ہنس کے گزار دی ہم نے کلی کلی ہمیں حیرانیوں سے تکتی ہے کہ پت جَھڑوں میں صدائے بہار دی ہم نے خیالِ یار کی رنگینیوں میں گم ہو کر جمالِ یار کی عظمت نکھار دی ہم نے اسے نہ جیت سکے گا غمِ زمانہ اب جو کائنات ترے در پہ ہار دی ہم نے وہ زندگی کہ جسے زندگی سے...
  19. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی اللہ رے اس چشمِ عنایات کا جادو - ساغر صدیقی

    اللہ رے اس چشمِ عنایات کا جادو تا عمر رہا حُسنِ ملاقات کا جادو معلوم نہ تھا سحر گزیدانِ وفا کو صبحوں کے پسِ پردہ ہے ظلمات کا جادو آنکھوں میں رواں کوثر و تسنیم کے منتر زُلفوں میں نہاں شامِ خرابات کا جادو آتا ہو جسے رسمِ محبت کا وظیفہ چلتا نہیں اس پر غمِ حالات کا جادو بربط کا جگر...
  20. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی سرِ مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں - ساغر صدیقی

    سرِ مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں یہاں اہلِ نظر ظلمات کی تعلیم دیتے ہیں یہاں کلیاں مہکتی ہیں مگر خوشبو نہیں ہوتی شکوفے برملا آفات کی تعلیم دیتے ہیں یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں زرتابی قباؤں میں سحر کا نام لے کر رات کی تعلیم دیتے ہیں جنہیں فیضانِ گلشن ہے نہ عرفانِ بہاراں ہے وہ پھولوں کو نئے...
Top