ساغر صدیقی بازارِ آرزو کی نوا دام چڑھ گئے - ساغر صدیقی

بازارِ آرزو کی نوا دام چڑھ گئے
ہر چیز قیمتوں سے سوا دام چڑھ گئے

ہے غازہِ بہار سے محروم ان دنوں
مخمور گیسوؤں کی گھٹا دام چڑھ گئے

اب قرضِ مے بحال ہو مشکل سے دوستو
کہتی ہے میکدے کی فضا دام چڑھ گئے

بے چین سُرخ سُرخ لبوں کی فصاحتیں
ہیں نکہتوں سے رنگ خفا دام چڑھ گئے

مریخ اور زہرہ کئی قیمتوں کے نام
ذروں نے مسکرا کے کہا دام چڑھ گئے

ہر ماہ لُٹ رہی ہے غریبوں کی آبرو
چڑھنے لگا ہلالِ قضا دام چڑھ گئے

اے وقت مجھ کو غیرتِ انساں کی بھیک دے
روٹی میں بک گئی ہے ردا دام چڑھ گئے

ہے احتسابِ زیست کی لٹکی ہوئی صلیب
ہر روز جیسے روزِ جزا دام چڑھ گئے

نقدِ خرد سُرور تمنا کا مُول ہے
ارماں کا رنگ زرد ہوا دام چڑھ گئے

ساغر صدیقی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top