ساغر صدیقی کچھ علاجِ وحشتِ اہلِ نظر بھی چاہیے - ساغرؔ صدیقی

کچھ علاجِ وحشتِ اہلِ نظر بھی چاہیے
ایک پتھر بر دُکانِ شیشہ گر بھی چاہیے

نامکمّل ہے سقوطِ کاروں کی داستاں
اس میں تھوڑا سا بیانِ راہبر بھی چاہیے

جن کے دامن میں دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان غریبوں کی دعاؤں میں اثر بھی چاہیے

گلستانِ آرزو کے انقلابی دور میں
ایک جشنِ موسمِ برق و شرر بھی چاہیے

جو لگا دیتے ہیں قصرِ زندگی میں آگ سی
ایسے شعلوں کے لیے اک اشکِ تر بھی چاہیے

پھر انہی انگڑائیوں میں حشر کے سامان ہوں
بزمِ جاناں میں کوئی آشفتہ سر بھی چاہیے

ہوں نہ ساغرؔ جس میں سنگ و میل کی پابندیاں
منزلوں تک ایک ایسی راہگزر بھی چاہیے​
ساغرؔ صدیقی
 
آخری تدوین:
Top