ساغر صدیقی انسان بدنصیب، مقدّر کی بات ہے - ساغر صدیقی

انسان بدنصیب، مقدّر کی بات ہے
گُل کو ملے صلیب، مقدّر کی بات ہے

اہلِ جنوں کے ہاتھ میں دونوں جہاں کی باگ
خطرے میں ہے غریب ، مقدّر کی بات ہے

زخمِ بہار بن گئی پُھولوں کی آرزو
سارا چمن رقیب ، مقدّر کی بات ہے

اہلِ چمن کو لنکتِ ماحول کھا گئی
ہر بے نوا خطیب ، مقدّر کی بات ہے

زخموں کو چھیڑتے ہیں بنامِ علاجِ نو
اس دور کے طبیب ، مقدّر کی بات ہے

تسکینِ جستجو ہے نہ اندازہِ قیام
منزل کے ہیں قریب ، مقدّر کی بات ہے

صحرا کی دھوپ بن گئی ساغرؔ کی تشنگی
دشمن بنے حبیب ، مقدّر کی بات ہے​
ساغر صدیقی
 
آخری تدوین:
Top