جون ایلیاء

  1. سیما علی

    جون ایلیا کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو

    کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو مت نکلنا کہ ڈوب جاؤ گے خوں ہے بس، خوں ہی خوں، ذرا ٹھہرو صورتِ حال اپنے باہر کی ہے ابھی تک زبوں، ذرا ٹھہرو ہوتھ سے اپنے لکھ کے نام اپنا میں تمہیں سونپ دوں، ذرا ٹھہرو میرا...
  2. سیما علی

    جون ایلیا لمحے کو بےوفا سمجھ لیجئے

    لمحے کو بےوفا سمجھ لیجئے جاودانی ادا سمجھ لیجئے …… میری خاموشئ مسلسل کو اِک مسلسل گِلہ سمجھ لیجئے …… آپ سے میں نے جو کبھی نہ کہا اُس کو میرا کہا سمجھ لیجئے …… جس گلی میں بھی آپ رہتے ہوں واں مجھے جا بہ جا سمجھ لیجئے …… آپ آ جایئے قریب مرے مجھ کو مجھ سے جُدا سمجھ لیجئے ……. جو نہ پہنچائے آپ تک مجھ...
  3. م

    جون ایلیا کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

    کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو...
  4. م

    جون ایلیا بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی

    بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا دل میں تھی ایک ہی تو بات، وہ جو فقط سہی گئی جانے کیا تلاش تھی جون میرے وجود میں جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی ایک خوشی کا حال ہے خوش سخن کے درمیاں عزت شائقین...
  5. فرحان محمد خان

    جون ایلیا اقوالِ جون ایلیا

    1:وہ باتیں کب تک ُسنے جاؤ گے جو آج تمہیں فقط پسند ہیں وہ باتیں کب کہنے دو گے جو کل تمہارے کام بھی آئیں گی 2: دنیا میں صرف دو عقیدے پائے جاتے ہیں انسانیت اور انسانیت دشمن اور صرف دو قومیں رہتی ہیں انسان اور انسان دشمن 3:انسانیت ایک خاندان ہے نہ اس میں کوئی امتیاز ہے اور نہ تفریق جو تفریق پیدا...
  6. فرحان محمد خان

    جون ایلیا نظم :ہجوِ معشوقان خود - جون ایلیا

    ہجوِ معشوقان خود یہ جو معشوق ہیں مرے دو چار بدکنش ، بدکلام ، بد کردار کیسا بد صوت لفظ ہے معشوق ہے قوافی میں جس کے اک مغلوق یہ مرا جبر ہیں، ضرورت ہیں میں کہ نر ہوں یہ مادہ صورت ہیں خوب سے خوب تر؟ ارے توبہ جون اور جستجو کرے! توبہ جو خود آ جائے وہ لیلی ہے ہو، اگر اس کا رنگ میلا ہے نشے میں کاہلی کے...
  7. فرحان محمد خان

    جون ایلیا انشاء :تیرے دیوانے یہاں تک پہنچے- جون ایلیا

    تیرے دیوانے یہاں تک پہنچےبستیاں سوالوں کے انبوہ میں گھری ہوئی ہیں ساتھ ہی وہ مسئلے ہیں جن سے ساری دنیا دوچار ہے۔ ہر مسئلہ اپنے سے بڑے مسئلے کا حل چاہتا ہے اور یہ دائرہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے اگر ہماری آںکھوں پر پٹی بندھی ہوئی زبان گَل نہیں گئی ہے اور عقل کو جنون نہیں ہو گیا ہے تو بھلا یہ کیسے...
  8. فرحان محمد خان

    جون ایلیا جانے کہاں گیا وہ، وہ جو ابھی یہاں تھا؟ - جون ایلیا

    جانے کہاں گیا وہ، وہ جو ابھی یہاں تھا؟ وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟ تا لمحہ گزشتہ یہ جسم اور بہار آئے زندہ تھے رائیگاں میں، جو کچھ تھا رائیگاں تھا اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو سچ جاننا وہاں...
  9. فرحان محمد خان

    جون ایلیا تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو - جون ایلیا

    تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو فکرِ ایجاد میں گم ہوں مجھے غافل نہ سمجھ اپنے انداز پر ایجاد کروں گا تجھ کو نشہ ہے راہ کی دوری کا کہ ہم راہ ہے تو جانے کس شہر میں آباد کروں گا تجھ کو میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے اب بہت دیر میں آزاد کروں گا...
  10. کاشف اختر

    جون ایلیا وہ اک عجیب زلیخا ہے یعنی بے یوسف ۔ جون ایلیا

    جو حال خیز ہو دل کا وہ حال ہے بھی نہیں فغاں کہ اب وہ ملالِ ملال ہے بھی نہیں تُو آ کے بے سروکارانہ مار ڈال مجھے کہ تیغ تھی بھی نہیں اور ڈھال ہے بھی نہیں مرا زوال ہے اس کے کمال کا حاصل مرا زوال تو میرا زوال ہے بھی نہیں کیا تھا جو لبِ خونیں سے اس پہ میں نے سخن کمال تھا بھی نہیں اور کمال ہے بھی...
  11. فرحان محمد خان

    جون ایلیا ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے - جون ایلیا

    ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ہر متاعِ نفس نذر آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے اول شب کا مہتاب بھی جا چکا صحنِ میخانہ سے اب افق...
  12. فرحان محمد خان

    جون ایلیا لَوحِ کتاب

    لَوحِ کتابمجھے قلم دو کہ میں تمہیں اک کتاب لکھ دوں تمہاری راتوں کے واسطے اپنے خواب لکھ دوں کتاب جس میں ہدایتیں ہیں کتاب جس میں تمہارے امراض کی شفا ہے مجھے قلم دو مجھے قلم دو یہ کون گستاخ میرے نزدیک بیٹھ کر بِلبِلا رہا ہے یہ کون بےہودہ مدّعی ہیں جو مجھ پہ ایزاد کر رہے ہیں انہیں اُٹھا دو انہیں...
  13. فرحان محمد خان

    جون ایلیا رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے

    رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے صبح بہ صبح رنج ہے شام بہ شام رنج ہے اس کی شمیم زلف کا کیسے ہو شکریہ ادا جب کہ شمیم رنج ہے جب کہ مشام رنج ہے صید تو کیا کہ صید کار خود بھی نہیں یہ جانتا دانہ بھی رنج ہے یہاں یعنی کہ دام رنج ہے معنئ جاودان جاں کچھ بھی نہیں مگر زیاں سارے کلیم ہیں زبوں سارا...
  14. محمد فائق

    جون ایلیا ہم آندھیوں کے بَن میں کسی کارواں کے تھے

    ہم آندھیوں کے بَن میں کسی کارواں کے تھے جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے اے جانِ داستاں! تجھے آیا کبھی خیال وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کے تھے ہم تیرے آستاں پہ یہ کہنے کو آئے ہیں وہ خاک ہو گئے جو ترے آستاں کے تھے مل کے تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اُداس خاطر نہ کیجئے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے...
  15. طارق شاہ

    جون ایلیا :::::: بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں :::::: Jon Elia

    غزل بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں میں نہیں خُود میں، یہ اِک عام خبر ہے مُجھ میں اِک عَجَب آمد و شُد ہے کہ، نہ ماضی ہے نہ حال جونؔ ! بَرپا کئی نسلوں کا سفر ہے مُجھ میں ہے مِری عُمر جو حیران تماشائی ہے ! اور اِک لمحہ ہے، جو زیر و زبر ہے مُجھ میں کیا ترستا ہُوں کہ، باہر کے کسی کام...
  16. نبیل رانا

    وہ جو اپنے مکان چھوڑ گئے : حضرت جون ایلیا

    وہ جو اپنے مکان چھوڑ گئے کیسے دنیا جہان چھوڑ گئے اے زمینِ وصال لوگ ترے ہجر کا آسمان چھوڑ گئے تیرے کوچے کے رُخصتی جاناں ساری دنیا کا دھیان چھوڑ گئے روزِ میداں وہ تیرے تیر انداز تیر لے کر کمان چھوڑ گئے جونؔ لالچ میں آن بان کی یار اپنی سب آن بان چھوڑ گئے
  17. زھرا علوی

    جون ایلیا طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں

    طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں بس اک غباروہم ہے اک کوچہ گرد کا دیوار بود کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں بس اک غبار طور گماں کا ہے تہہ بہ تہہ یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ...
  18. سید فصیح احمد

    جون ایلیا بے اثبات

    کس کو فرصت ہے کہ مجھ سے بحث کرے اور ثابت کرے کہ میرا وجود زندگی کے لیئے ضروری ہے
  19. نیرنگ خیال

    جون ایلیا ہے فصیلیں اُٹھا رہا مجھ میں

    ہے فصیلیں اُٹھا رہا مجھ میں جانے یہ کون آ رہا مجھ میں جونؔ مجھ کو جلا وطن کر کے وہ میرے بِن بھلا رہا مجھ میں مجھ سے اس کو رہی تلاش، اُمید سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں تھا قیامت، سکوت کا آشوب حشر سا اک بپا رہا مجھ میں پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی ایک پردہ کھنچا رہا مجھ میں مجھ میں آ کے گِرا...
  20. نیرنگ خیال

    جون ایلیا مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے

    مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا میں ہوں بلا کا بدحساب اس کو...
Top