طارق شاہ
محفلین
غزل
بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں
میں نہیں خُود میں، یہ اِک عام خبر ہے مُجھ میں
اِک عَجَب آمد و شُد ہے کہ، نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ ! بَرپا کئی نسلوں کا سفر ہے مُجھ میں
ہے مِری عُمر جو حیران تماشائی ہے !
اور اِک لمحہ ہے، جو زیر و زبر ہے مُجھ میں
کیا ترستا ہُوں کہ، باہر کے کسی کام آئے !
وہ اِک انبوہ کہ بس، خاک بسر ہے مُجھ میں
ڈوبنے والوں کے دریا مِلے پایاب مُجھے
اُس میں، اب ڈوب رہا ہُوں، جو بھنور ہے مُجھ میں
دَر و دِیوار تو باہر کے ہیں ڈھینے والے
چاہے رہتا نہیں میں، پر مِرا گھر ہے مُجھ میں
میں جو پیکار میں اندر کی ہُوں بے تیغ و زِرہ
آخرش کون ہے؟ جو سِینہ سِپر ہے مُجھ میں
معرکہ گرم ہے بے طَور سا کوئی ہر دَم !
نہ کوئی تیغ سلامت، نہ سِپر ہے مُجھ میں
زخم ہا زخم ہُوں، اور کوئی نہیں خُوں کا نِشاں !
کون ہے وہ؟ جو مِرے خون میں تر ہے مُجھ میں
جوؔن ایلیا