جمال احسانی

  1. محمد تابش صدیقی

    جمال احسانی غزل: ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے

    ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے اک بھولی ہوئی بات ہے اِک ٹوٹا ہوا خواب ہم اہلِ محبت کو یہ اِملاک بہت ہے کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو کچھ خانہ خرابوں میں مِری دھاک بہت ہے پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے کیا اس سے...
  2. چوہدری لیاقت علی

    جمال اور احسان کا مرکب - جمال احسانی

    جمال اور احسا ن کا مرکب : جمال احسانی آتا ہے بہت یاد جمال احسانی تھا خوب بھلا شخص دوبارہ نہ ملا اپنے نام کی طرح منفرد لب و لہجہ کے شاعر جمال احسانی ان شاعروں میں سے ہیں جو شاید میڈیا پر تو اتنے مشہور نہیں ہوئے مگر اپنی عمدہ شاعری کی بدولت ہمیشہ قارئین کے ذہنوں پر راج کریں گے۔ان کا شعری سفر تین...
  3. خبیب احمد

    جمال احسانی نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

    نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا بس اک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کے لے آیا یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا عجب ہے تو کہ تجھے...
  4. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ اُس کو تو جیت دیکھنا یا ہار دیکھنا ۔ جمال احسانی

    غزل اُس کو تو جیت دیکھنا یا ہار دیکھنا مجھ کو مگر لڑائی کا معیار دیکھنا آوارگی کو چھوڑے زمانہ ہوا مگر آیا نہیں ابھی ہمیں گھر بار دیکھنا خلوت میں آنکھ بھر کے جسے دیکھنا محال ہر انجمن میں اس کو لگاتار دیکھنا لوگوں کو تیرے کوچے کی رونق پہ سوچنا ہم کو ترے مکان کی دیوار دیکھنا حبسِ خیال و...
  5. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ ۔ جمال احسانی

    غزل سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ نامساعد صورتِ حالات کے باوصف بھی خود بنالیتے ہیں جنگل میں شجر اپنی جگہ میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں اور شرمندہ ہیں میرے ہمسفر اپنی جگہ کیوں سِمٹتی جا رہی ہیں خود بخود آبادیاں چھوڑتے کیوں جا رہے...
  6. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ تنہا بھی منہ اُٹھا کے نکلنا محال ہے ۔ جمال احسانی

    غزل تنہا بھی منہ اُٹھا کے نکلنا محال ہے ہمراہ بھی ہجوم کے چلنا محال ہے حرفِ دعا کا صفحہ ء دستِ بلند پر وہ بوجھ ہے کہ ہاتھ بدلنا محال ہے دل نے جلائی ہیں جو سرِ طاقِ انتظار اُن موم بتیوں کا پگھلنا محال ہے گم کیا ہوا ہے کاسہ ء درویش شہر میں نظریں اُٹھا کے شہر کا چلنا محال ہے میرے بھی...
  7. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ وہ ہاتھ ہی تھا اور، وہ پتھر ہی اور تھا ۔ جمال احسانی

    غزل وہ ہاتھ ہی تھا اور، وہ پتھر ہی اور تھا دیکھا پلک جھپک کے تو منظر ہی اور تھا تیرے بغیر جس میں گزاری تھی ساری عمر تجھ سے جب آئے مل کے تو وہ گھر ہی اور تھا سُنتا وہ کیا کہ خوف بظاہر تھا بے سبب کہتا میں اُس سے کیا کہ مجھے ڈر کچھ اور تھا جاتی کہاں پہ بچ کے ہوائے چراغ گیر مجھ جیسا ایک...
  8. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ جو لمحہ رائگاں گُذرا وہی تو کام کا تھا ۔ جمال احسانی

    غزل جو لمحہ رائگاں گزرا وہی تو کام کا تھا بہر نفس یہ زیاں عمرِ ناتمام کا تھا یہ کیا ہوا کہ بھرے آسماں کے آنگن میں بچھڑ گیا جو ستارہ ہمارے نام کا تھا بڑھا کے اُس سے رہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا ہر اک کے بس میں کہاں تھا کہ سو رہے سرِ شام یہ کام بھی ترے...
  9. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ کیاری کیاری خالی ہے ۔ جمال ؔ احسانی

    غزل کیاری خالی خالی ہے گہری سوچ میں مالی ہے رنگ ہے وہ اُڑنے والا آنکھ وہ بھولنے والی ہے اُکتا کر تنہائی سے اک تصویر بنالی ہے ہات ہوا میں لہرائے گاڑی جانے والی ہے نامانوس لب و لہجہ صورت دیکھی بھالی ہے مائیں دروازوں پر ہیں بارش ہونے والی ہے کچھ نہیں اُس کی مُٹھی میں...
  10. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ ہر قرضِ سفر چُکا دیا ہے ۔ جمالؔ احسانی

    غزل ہر قرضِ سفر چُکا دیا ہے دشت اور نگر ملا دیا ہے جُز عشق کسے ملی یہ توفیق جو پایا اُسے گنوا دیا ہے پہلے ہی بہت تھا ہجر کا رنج اب فاصلوں نے بڑھا دیا ہے آبادیوں سے گئے ہُوؤں کو صحراؤں نے حوصلہ دیا ہے دیوار بدست راہ رو تھے کس نے کسے راستہ دیا ہے بچھڑا تو تسلی دی ہے اس نے کس دھند میں...
  11. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ جمال وعدہ ء یک نانِ خشک پر رہنا ۔ جمالؔ احسانی

    غزل جمال وعدہ ء یک نانِ خشک پر رہنا ہمارے واسطے آساں ہے عمر بھر رہنا سرھانا جان کے پتھر تلک چُرا لیں گے سفر میں جاگتے رہنا جدھر جدھر رہنا کوئی بھی ہو اُسے لاتا ہے کم وہ خاطر میں ہمیں بھی اپنی ہوا میں زیادہ تر رہنا کئی دنوں سے عجب حال ہو گیا اپنا نہ اُس گلی ہی میں جانا نہ اپنے گھر رہنا...
  12. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ دلِ پژ مُردہ کو ہم رنگِ ابر و باد کردے گا ۔ جمالؔ احسانی

    غزل دلِ پژ مُردہ کو ہم رنگِ ابر و باد کردے گا وہ جب بھی آئے گا اس شہر کو آباد کردے گا کوئی محرابِ دل ہو، طاقِ جاں ہو یا شبِ تیرہ جہاں چاہے گا وہ روشن چراغِ یاد کردے گا وہ سارے رابطے توڑے گا ہم سے اور اچانک پھر تعلق کی نئی صورت کوئی ایجاد کردے گا گزر جائے گی یہ بھی شام پچھلی شام کی مانند...
  13. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص ۔ جمالؔ احسانی

    غزل بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تری گلی والے بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے وہ میرے یار مِرے قہقہوں کے متوالے اگر وہ جان کے درپے ہیں اب تو کیا شکوہ وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے مقدروں کی لکیروں سے مات کھا ہی گئے ہم ایک دوسرے کا ہاتھ چومنے والے...
  14. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی ۔ جمال احسانی

    غزل کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی سرِ کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کارِ محبت میں کوئی پل بے کار نہیں جاتا، کوئی بات...
  15. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے ۔ جمال احسانی

    غزل وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا پر اُس کے طور...
  16. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ سلوکِ نا روا کا اس لئے شکوہ نہیں کرتا ۔ جمال احسانی

    غزل سلوکِ نا روا کا اس لئے شکوہ نہیں کرتا کہ میں بھی تو کسی کی بات کی پروا نہیں کرتا ترا اصرار سر آنکھوں پہ تجھ کو بھول جانے کی میں کوشش کرکے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا بہت ہشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں میں دل کی بات کو دیوار پر لکھا نہیں کرتا اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ...
  17. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ ہے جس کے ہات میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں ۔ جمال احسانی

    غزل ہے جس کے ہات میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں کہ فکرِ آئینۂ جسم و جاں ، یہاں بھی نہیں جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سننے کو بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے کہ رہنے...
  18. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی ۔ جمال احسانی

    غزل ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی ڈار سے بچھڑا...
  19. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا ۔ جمال احسانی

    غزل جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا بُرا تھا یا وہ بھلا، لمحۂ محبت تھا وہیں پہ سلسلہ ماہ و سال رہ جاتا بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر اُن آنکھو ں سے اُس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ...
  20. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ جمال اب تو یہی رہ گیا پتہ اُس کا ۔ جمال احسانی

    غزل جمال اب تو یہی رہ گیا پتہ اُس کا بھلی سی شکل تھی اچھا سا نام تھا ا ُس کا پھر ایک سایہ در و با م پر اُتر آیا دل ونگاہ میں پھر ذکر چھڑ گیا ا ُس کا کسے خبر تھی کہ یہ دن بھی دیکھنا ہوگا اب اعتبار بھی دل کو نہیں رہا ا ُس کا جو میرے ذکر پہ اب قہقہے لگاتا ہے بچھڑتے وقت کوئی حال...
Top