جمال احسانی غزل ۔ جو لمحہ رائگاں گُذرا وہی تو کام کا تھا ۔ جمال احسانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
جو لمحہ رائگاں گزرا وہی تو کام کا تھا
بہر نفس یہ زیاں عمرِ ناتمام کا تھا
یہ کیا ہوا کہ بھرے آسماں کے آنگن میں
بچھڑ گیا جو ستارہ ہمارے نام کا تھا
بڑھا کے اُس سے رہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں
وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا
ہر اک کے بس میں کہاں تھا کہ سو رہے سرِ شام
یہ کام بھی ترے آوارگانِ شام کا تھا
کوئی شجر، کوئی دیوار چاہتا تھا جمالؔ
سفر میں لوگ تھے جھگڑا مگر قیام کا تھا
جمالؔ احسانی
 

صائمہ شاہ

محفلین
کیا خوبصورت شعر ہے بہت سے لوگوں کو لے کر اکثر دماغ میں گونجتا ہے


بڑھا کے اُس سے رہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں
وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا
 
Top