جمال احسانی غزل ۔ وہ ہاتھ ہی تھا اور، وہ پتھر ہی اور تھا ۔ جمال احسانی

محمداحمد

لائبریرین
غزل
وہ ہاتھ ہی تھا اور، وہ پتھر ہی اور تھا
دیکھا پلک جھپک کے تو منظر ہی اور تھا
تیرے بغیر جس میں گزاری تھی ساری عمر
تجھ سے جب آئے مل کے تو وہ گھر ہی اور تھا
سُنتا وہ کیا کہ خوف بظاہر تھا بے سبب
کہتا میں اُس سے کیا کہ مجھے ڈر کچھ اور تھا
جاتی کہاں پہ بچ کے ہوائے چراغ گیر
مجھ جیسا ایک میرے برابر ہی اور تھا
کیا ہوتے ہم کلام بھلا ساحل و چراغ
وہ شب ہی اور تھی، وہ سمندر ہی اور تھا
جمالؔ احسانی
 
Top