بیٹوں کے سر سے باپ کا سایہ جو ہٹ گیا
اتنا بڑا مکان تھا حصّوں میں بٹ گیا
کہتے ہیں نقشِ پا کہ رُکا تھا وہ دیر تک
دستک دیے بغیر جو در سے پلٹ گیا
میں خود ڈرا ہوا تھا پہ ہمّت سی آ گئی
جب بچّہ ڈر کے میرے گلے سے لپٹ گیا
ثابت ہوا کہ میری زمیں مجھ کو راس تھی
آ کر بلندیوں میں مرا وزن گھٹ گیا...
جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا
مکڑی نے کچھ لکھا تھا پتا ہی نہیں چلا
سوتا نہیں تھا میں توکبھی فرشِ سنگ پر
آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا
تھے سب ہی سوگوار پتا چل گیا مگر
کِس کِس کو دکھ ہوا تھا پتا ہی نہیں چلا
منصف نے بس سزائیں بتائیں، سبب نہیں
مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں...
یوں تو میں شام سے کچھ پہلے ہی گھر جاتا ہوں
گھر میں ہوتے ہوئے پر جانے کدھر جاتا ہوں
میرے بچّوں کے تحفظ کی ضمانت جو نہیں
نام قاتل کا بتاتے ہوئے ڈر جاتا ہوں
میری اُ نگلی نہیں پکڑے ہوئے کوئی پھرکیوں
میں کھلونوں کی دکانوں پہ ٹھہر جاتا ہوں
مجھ سے رسماً بھی کوئی بات نہیں کرتا ہے
خالی...
اسی ڈر سے نہیںدونوں ہوئے اِک بار جدا
کیا بنے گا جو ہوئے ناؤ سے پتوار جدا
یہی بہتر ہے کہ مضبوط ہوں رشتے ورنہ
کون بچ سکتا ہے گر چھت سے ہو دیوار جدا
پانیوں سے تھا گزر میرا، ہوا سے تیرا
کیا عجب ہے جو رہی دونوں کی رفتار جدا
گھر کا دروازہ مقفّل بھی نہیں کرکے گیا
اُس کے جانے کا ارادہ ہی...
شور قدموں کا پہنچ جاتا ہے دروازے تک
مجھ سے کچھ پہلے ہی وہ آتا ہے دروازے تک
یوں بھی ہوتا ہے کہ جب لمبے سفر پر نکلوں
ہر قدم پر کوئی سمجھاتا ہے دروازے تک
کھٹکھٹائے کوئی دروازہ اگر رات گئے
میرا دل صحن سے گھبراتا ہے دروازے تک
جانی پہچانی سی دستک میں کشش ہے کتنی
آدمی کھنچتا چلا آتا ہے...
آنکھوں میںتیری بزمِ تماشا لئے ہوئے
جنّت میں بھی ہوں جنّتِ دنیا لئے ہوئے
پاسِ ادب میںجوشِ تمنّا لئے ہوئے
میں بھی ہو ں اِک حباب میں دریا لئے ہوئے
کس طرح حسنِ دوست ہے بے پردہ آشکار
صد ہا حجابِ صورت و معنےٰ لئے ہوئے
ہے آرزو کہ آئے قیامت ہزار بار
فتنہ طرازیء قدِ رعنا لئے ہوئے
طوفانِ...
نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ تری نرگسِ مستانہ بنے
مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے
پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہ گذار
ذرّے جو خاک سے اٹھے ، وہ صنم خانہ بنے
موج صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ...
ہم میں رنجش تھی وہ حیران سا کیوں لگتا تھا
رات بھر بیٹا پریشان سا کیوں لگتا تھا
دن پھرے ہیں جو ہمارے تو خیال آیا ہے
آشنا ہو کے وہ انجان سا سا کیوں لگتا تھا
تیز قدموں سے ہی کیوں چلنا پڑا گھر کی طرف
جسم اپنا مجھے بے جان سا کیوں لگتا تھا
خواب میں لینے کو جب آئے تھے مرحوم احباب
اپنے مر...
اسی لیے تو ہر اک ہم زبان اُس کا تھا
کہ گاؤں میں جو تھا پختہ مکان، اُس کا تھا
اب اس کے حکم پہ بھی راستے بدلنے تھے
کہ ناؤ میری تھی اور بادبان اُس کا تھا
جبھی تو چھاؤں میں اِک دھوپ سی تمازت تھی
کہ میرے سر پہ جو تھا سائبان، اُس کا تھا
بتاؤ بچوں کو کالی کریں نہ دیواریں
وہ کہہ بھی سکتا...
پہلے بٹھا دیے گئے پہرے زبان پر
پھر دی گئی سزا مجھے میرے بیان پر
کچھ اور بات ہو یہ کوئی حادثہ نہ ہو
لوگوں کا اِک ہجوم ہے میرے مکان پر
پھرتا ہوں سر پہ ہاتھ رکھے تیز دھوپ میں
کرتا ہوں اکتفا میں اِسی سائبان پر
بچّوں سے کچھ چھپی تو نہیں میری حیثیت
لے کر نہ جائیں گے کسی اونچی دکان پر...
خدشہ شکار ہونے کا رہتا ہے دھیان میں
تنہا پرندہ اڑتا نہیں آسمان میں
کچھ اتنے فاصلے ہیں مکینوں کے درمیاں
دیواریں کھینچنی نہ پڑیں گی مکان میں
ڈر تھا کہ پھٹ نہ جائے ہوا کے دباؤ سے
دو ایک چھید رکھنے پڑے بادبان میں
پھر یوں کیا کہ خود کہ نشانہ بنا لیا
باقی بچا تھا ایک ہی ناوک کمان میں...
تحفظ کا ٹھکانہ پُر خطر کیوں لگ رہا ہے
نہ جانے اپنے گھر جانے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے
اگر دیکھوں تو کل تک تھا جہاں اب بھی وہیں ہوں
مگر سوچوں تو طے ہوتا سفر کیوں لگ رہا ہے
وہ باہر قفل ڈالے گھر کے اندر بند کیوں ہے
اُسے باہر نکل آنے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے
وہی اس وارداتِ قتل کا ہے عینی شاہد...
رات بھر لکھا گیا شہر کی دیواروں پر
اگلے دن کچھ بھی نہ تھا شہر کی دیواروں پر
وہ بھی دور آئے کہ ظالم کو عدالت سے ملے
لوگ لکھیں جو سزا شہر کی دیواروں پر
خلقتِ شہر ترے بارے میں کہا کہتی ہے
اِک نظر ڈال ذرا شہر کی دیواروں پر
جس کو اخبار نہیں مصلحتاً چھاپ سکے
جابجا ہم نے پڑھا شہر کی...
مری سمت چلنے لگی ہوا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
مرا جرم صرف یہی تو تھا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
وہاں آفتاب ہتھیلیوں پہ لیے ہوئے کئی لوگ تھے
مجھے اپنا آپ عجب لگا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
مجھے اپنے پیاروں کی صورتیں ذرا دیکھنی تھیں قریب سے
نہیں چاند تارے ملے تو کیا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں...
محشر میں پاس کیوں دمِ فریاد آگیا
رحم اس نے کب کیا تھا کہ اب یاد آگیا
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
ناکامیوں میں تم نے جو تشبیہ مجھ سے دی
شیریں کو درد تلخیِ فرہاد آگیا
ہم چارہ گر کو یوں ہی پہنائیں گے بیڑیاں
قابو میں اپنے گر وہ پری زاد آگیا
دل کو...