نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    اُن کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا - صبا لکھنوی

    اُن کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا رُندھ گیا، پِس گیا، مٹی ہوا، پامال ہوا دشت وحشت کا علاقہ مجھے امسال ہوا داغ سودا، صفتِ نیّرِ اقبال ہوا اس بکھیڑے سے الٰہی کہیں چھٹکارا ہو عشقِ گیسو نہ ہوا، جان کا جنجال ہوا نظرِ لطف نہ کی تو نے مرے رونے پر طفلِ اشک اے مہِ خوبی نہ خوش اقبال ہوا...
  2. فرخ منظور

    سودا کسی کا دردِ دل پیارے تمہارا ناز کیا سمجھے - مرزا رفیع سودا

    کسی کا دردِ دل پیارے تمہارا ناز کیا سمجھے جو گزرے صید کے جی پر، اسے شہباز کیا سمجھے رِہا کرنا ہمیں صیّاد اب پامال کرنا ہے پھڑکنا بھی جسے بھولا ہو سو پرواز کیا سمجھے نہ پہنچے داد کو ہرگز ترے کوچے کا فریادی کسی کے شورِ محشر میں، کوئی آواز کیا سمجھے نہ پوچھو مجھ سے میرا حال ٹک دنیا میں جینے دو...
  3. فرخ منظور

    سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام - ایوب خاور

    سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام ہر سر میں اِک رنگ دھنک کا تیرے نام جنگل جنگل اڑنے والے سب موسم اور ہوا کا سبز دوپٹہ تیرے نام ہجر کی شام اکیلی رات کے خالی در صبحِ فراق کا درد اجالا تیرے نام تیرے بنا جو عمر بتائی بیت گئی اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام جتنے خواب خدا نے میرے نام لکھے...
  4. فرخ منظور

    جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے - پرواز جالندھری

    جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے مے برستی ہے فضاؤں پہ نشہ طاری ہے میرے ساقی نے کہیں جام اچھالے ہوں گے شمع وہ لائے ہیں ہم جلوہ گہء جاناں سے اب دو عالم میں اجالے ہی اجالے ہوں گے جن کے دل پاتے ہیں آسائشِ ساحل سے سکوں اِک نہ اک روز طلاطم...
  5. فرخ منظور

    کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا - حسن رضوی

    کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرفِ سلام لکھنا وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں، سلگتے دن تھے، سلگتی راتیں وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا وہ آرزؤں کے خواب بننا وہ قصہء ناتمام...
  6. فرخ منظور

    آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے - حسن عباس رضا

    آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے اس بت سے عشق کیجیے لیکن کچھ اس طرح پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیے مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیے جس شام شاہزادی فقیروں کے گھر میں آئے اُس شام وقت کو بھی ٹھہر جانا چاہیے ربِّ وصال،...
  7. فرخ منظور

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے - خاطر غزنوی

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں ہم جہاں پہنچے، ہمارے...
  8. فرخ منظور

    اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں - شعیب بن عزیز

    اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں اب تو اُس کی آنکھوں کے میکدے میّسر ہیں پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں جس طرح شعیب اس کا نام چُن لیا تم نے اس نے بھی ہے چُن...
  9. فرخ منظور

    دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں - ظہور نظر

    دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے وہ گھڑیاں...
  10. فرخ منظور

    تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا - قیّوم نظر

    تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا اِک اِک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا دیکھا تجھے تو آرزؤں کا ہجوم تھا پایا تجھے تو کچھ بھی نہ تھا باقی رہا ہوا دشتِ جنوں میں ریگِ رواں سے خبر ملی پھرتا رہا ہے تو بھی مجھے ڈھونڈتا...
  11. فرخ منظور

    کیا غمِ جاں اور کیا غمِ جاناں سب کے محرمِ راز ہوئے - مختار صدیقی

    کیا غمِ جاں اور کیا غمِ جاناں سب کے محرمِ راز ہوئے اب مجبورِ نوا بھی نہیں ہیں اب تو پردہء ساز ہوئے خوئے فراق ہی آڑے آئی آخر ہم مجبوروں کے میل ملاپ پہ قادر جب سے آپ ایسے دم باز ہوئے لازم ہے درویش کی خاطر پردہ دنیا داری کا ورنہ ہم تو فقیر ہیں جب سے یار زمانہ ساز ہوئے شعر و سخن، سامانِ...
  12. فرخ منظور

    میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں - اسلم انصاری

    میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں بے نیازی سے سبھی قریہء جاں سے گزرے دیکھتا کوئی نہیں...
  13. فرخ منظور

    رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا - خالد شریف

    رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا جو اُس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اِک عزیز دوست اپنے مفاد پر مجھے قربان کرگیا کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا خالد میں...
  14. فرخ منظور

    خالد احمد ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں - خالد احمد

    ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں حالات کے طلسم نے پتھرا دیا مگر بیتے سموں کی یاد میں کھویا نہ تو نہ میں ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے وا کر سکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں نوحے فصیلِ ضبط سے اونچے نہ ہو سکے کھل کر دیارِ سنگ میں رویا نہ تو نہ میں...
  15. فرخ منظور

    شعر کا جواب شعر میں

    یہاں ایک نیا کھیل شروع کیا جارہا ہے - جس میں ایک رکن شعر لکھے گا اور اسکا جواب بھی کوئی دوسرا رکن شعر میں ہی دے گا - مثلا" دل نااُمّید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام! مگر شام ہی تو ہے اور جواباً یہ شعر دل گرفتہ ہی سہی، بزم سجا لی جائے یاد جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے
  16. فرخ منظور

    گلزار نٹ کھٹ - گلزار

    نٹ کھٹ گیلی گیلی سی دھوپ کے گچھّے ٹھنڈی ٹھنڈی سی آگ کی لپٹیں سرخ چمکیلا گُل مہر کا پیڑ نیم تاریک بند کمرے سے جب بھی دروازہ کھول کر نکلوں سرخ چمکیلی دھوپ کا چھینٹا ایسے لگتا ہے آنکھ پر آ کر جیسے چنچل شریر اِک بچّہ چوری چوری کواڑ سے کودے "ہاہ" کہہ کر ڈرائے اور ہنس دے
  17. فرخ منظور

    گلزار عادتا" ہی - - - - - - گلزار

    گلزار کی یہ نظم فاتح صاحب کی نذر عادتا" ہی - - - - - - سانس لینا بھی کیسی عادت ہے جیئے جانا بھی کیا روایت ہے کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں کوئی سایہ نہیں‌ ہے آنکھوں میں پاؤں بے حِس ہیں چلتے جاتے ہیں اِک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے سانس لیتے ہیں، جیتے رہتے ہیں...
  18. فرخ منظور

    شکیل بدایونی رہبر کی نہ فکر ہے نہ فکر منزل کی - شکیل بدایونی

    رہبر کی نہ فکر ہے نہ فکر منزل کی کر رہا ہوں میں پیروی دل کی کھوگیا جستجوئے شوق میں جب مل گئی مجھ کو راہ منزل کی آہ نہ آئے ، نہ ان کو آنا تھا آرزو دل میں رہ گئی دل کی پھر طلاطم میں لے گئیں موجیں مجھ کو صورت دکھا کے ساحل کی ترکِ الفت کی کوششیں ہیں فضول کیا بجھے لگی ہوئی دل...
  19. فرخ منظور

    شکیل بدایونی ہو تو کمالِ ربطِ محبّت کسی کے ساتھ - شکیل بدایونی

    ہو تو کمالِ ربطِ محبّت کسی کے ساتھ دل چیز کیا ہے جان بھی دے دوں خوشی کے ساتھ ہمدردیاں ہیں عمر کو تنہا روی کے ساتھ طے کر رہا ہوں راہِ وفا زندگی کے ساتھ ہے ہر قدم پہ فتنہ در آغوشِ کائنات ممکن نہیں گزر یہاں آشتی کے ساتھ حاصل ہے اختیار جسے مرگ و زیست پر جی چاہتا ہے عمر گزاروں اُسی کے...
Top