دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں - ظہور نظر

فرخ منظور

لائبریرین
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں

ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں

دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں

سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں، کیسے بتائیں تمہیں

جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں

اڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم
بیرن شام کا تھام کے دامن روز بلائیں تمہیں

دور گگن پر ہنسنے ولے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ، ہاتھ لگائیں تمہیں

درد ہماری محرومی کا تم جب جانو گے
جب کھانے آئے گی چپ کی سائیں سائیں تمہیں

رنگ برنگے گیت تمھارے ہجر میں ہاتھ آئے
پھر بھی یہ کیسے چاہیں کہ ساری عمر نہ پائیں تمہیں

پاس ہمارے آکر تم بیگانہ سے کیوں ہو؟
چاہو تو ہم پھر کچھ دوری پر چھوڑ آئیں تمہیں

انہونی کی چنتا، ہونی کا انیائے نظرؔ
دونوں بیری ہیں جیون کے، ہم سمجھائیں تمہیں

(ظہور نظر)
 

جہانزیب

محفلین
ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
یہ شعر چار سال تک میرے حواس پر طاری رہا تھا :p
 

محمد وارث

لائبریرین
لا جواب، شکریہ شیئر کرنے کیلیئے۔ کیا خوب گائی ہے شاہدہ پروین نے۔


[ame]http://www.youtube.com/watch?v=u__0X8K7MDs[/ame]
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ جہانزیب اور وارث صاحب - میں‌ سوچ ہی رہا تھا کہ یہ غزل کس نے گائی ہے لیکن ذہن میں‌ واضح نہیں ہو رہا تھا - بہت شکریہ شئیر کرنے کے لیے وارث صاحب-
 

نایاب

لائبریرین
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں

ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں

دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں

سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں، کیسے بتائیں تمہیں


جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں

اڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم
بیرن شام کا تھام کے دامن روز بلائیں تمہیں


دور گگن پر ہنسنے ولے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ، ہاتھ لگائیں تمہیں

(ظہور نظر)
السلام علیکم
محترم سخنور جی
بہت شکریہ اتنی اچھی غزل سے نوازنے کا
اللہ کرے ذوق علم اور زیادہ آمین
نایاب
 

فاتح

لائبریرین
آج یہ غزل ارسال کرنے لگا لیکن نہ صرف فرخ صاحب پہلے ہی یہ بازی مار چکے تھے بلکہ وارث صاحب نے شاہدہ پروین کو بھی یہاں بلا لیا تھا۔ آپ دونوں احباب کا شکریہ!
اب میں اپنا حصہ بقیہ چار اشعار ارسال کرنے کی صورت میں ڈالتا ہوں۔
درد ہماری محرومی کا تم جب جانو گے
جب کھانے آئے گی چپ کی سائیں سائیں تمھیں

رنگ برنگے گیت تمھارے ہجر میں ہاتھ آئے
پھر بھی یہ کیسے چاہیں کہ ساری عمر نہ پائیں تمھیں

پاس ہمارے آکر تم بیگانہ سے کیوں ہو؟
چاہو تو ہم پھر کچھ دوری پر چھوڑ آئیں تمھیں

انہونی کی چنتا، ہونی کا انیائے نظرؔ
دونوں بیری ہیں جیون کے، ہم سمجھائیں تمھیں
 

فاتح

لائبریرین
حضور اپنا پہلا مراسلہ مدون کر کے ان اشعار کو بھی غزل میں شمولیت کا شرف بخش دیجیے۔:)
 

مغزل

محفلین
ایک بار پھر شکریہ ، فرخ بھائی، وارث صاحب اور فاتح بھیا، ۔۔ ہم نے بچپن میں ریڈیو پر سن رکھی تھی۔ مکمل پڑھ کر تو روح سرشار ہوگئی ، آج ہمارے بھانجے صاحب کو یہ غزل گانے کا دورہ پڑا تو لڑی سے کاپی کرنے حاضر ہوا، سوچا رسید پیش کردوں ۔
 
Top