اصغر گونڈوی نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے - اصغر گونڈوی

فرخ منظور

لائبریرین
نہ یہ شیشہ نہ یہ ساغر نہ یہ پیمانہ بنے
جانِ میخانہ تری نرگسِ مستانہ بنے

مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے
ہوش رکھتا ہو جو انسان تو دیوانہ بنے

پرتوِ رخ کے کرشمے تھے سرِ راہ گذار
ذرّے جو خاک سے اٹھے ، وہ صنم خانہ بنے

موج صہبا سے بھی بڑھ کر ہوں ہوا کے جھونکے
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے

کارفرما ہے فقط حُسن کا نیرنگِ کمال
چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے

چھوڑ کر یوں درِ محبوب چلا صحرا کو
ہوش میں آئے ذرا قیس نہ دیوانہ بنے

خاک پروانہ کی برباد نہ کر بادِ صبا
عین ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

جرعہء مے تری مستی کی ادا ہو جائے
موجِ صہبا تری ہر لغزشِ مستانہ بنے

اُس کو مطلوب ہیں کچھ قلب و جگر کے ٹکڑے
جیب و دامن نہ کوئی پھاڑ کے دیوانہ بنے

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

(اصغر گونڈوی)
 
مدیر کی آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب!
اصغر گونڈوی کا کلام کہاں سے ملے گا؟

نظامی صاحب - مجھے اصغر گونڈوی کے کلیات عاریتاً نوید صادق صاحب نے عنائت کی ہے لیکن بقول نوید صادق صاحب کے اصغر گونڈوی، ایم - اے اردو کے نصاب میں شامل ہیں‌ اس لئے ان کا کلام وہاں سے بآسانی دستیاب ہو جائے گا جہاں سے ایم-اے اردو کا نصاب دستیاب ہوگا -
 
آپ نے غزل کے چوتھے شعر کا پہلا مصرع:
"موج صبا سے بھی بڑھ کے ہوں ہوا کے جھونکے"
لکھا ہے جو وزن اور بحر سے خارج ہے۔ صحیح مصرعہ غالبا یوں ہے:
"بڑھ کے ہوں موج صبا سے بھی ہوا کے جھونکے"
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ نے غزل کے چوتھے شعر کا پہلا مصرع:
"موج صبا سے بھی بڑھ کے ہوں ہوا کے جھونکے"
لکھا ہے جو وزن اور بحر سے خارج ہے۔ صحیح مصرعہ غالبا یوں ہے:
"بڑھ کے ہوں موج صبا سے بھی ہوا کے جھونکے"
ابر یوں جھوم کے چھا جائے کہ میخانہ بنے
بھائی اگر کتاب پاس نہ ہو تو خود اندازے نہ لگایا کریں۔ یہاں صرف ایک ٹائپنگ کی غلطی ہے کہ صہبا کی بجائے صبا ٹائپ ہو گیا ہے۔
 
Top