مری سمت چلنے لگی ہوا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں - پرویز اختر

فرخ منظور

لائبریرین
مری سمت چلنے لگی ہوا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
مرا جرم صرف یہی تو تھا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

وہاں آفتاب ہتھیلیوں پہ لیے ہوئے کئی لوگ تھے
مجھے اپنا آپ عجب لگا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

مجھے اپنے پیاروں کی صورتیں ذرا دیکھنی تھیں قریب سے
نہیں چاند تارے ملے تو کیا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

نہیں دم گھٹا مرا حبس میں، مجھے روشنی کی طلب جو تھی
میں‌ ہوا کو کیسے پکارتا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

مرے اہلِ خانہ کو کیا خبر کسی آفتاب کی آس ہو
اِسی ڈر سے میں نہیں گھر گیا کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

(پرویز اختر)
 
Top