تحفظ کا ٹھکانہ پُر خطر کیوں لگ رہا ہے - پرویز اختر

فرخ منظور

لائبریرین
تحفظ کا ٹھکانہ پُر خطر کیوں لگ رہا ہے
نہ جانے اپنے گھر جانے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے

اگر دیکھوں تو کل تک تھا جہاں اب بھی وہیں ہوں
مگر سوچوں تو طے ہوتا سفر کیوں لگ رہا ہے

وہ باہر قفل ڈالے گھر کے اندر بند کیوں ہے
اُسے باہر نکل آنے سے ڈر کیوں لگ رہا ہے

وہی اس وارداتِ قتل کا ہے عینی شاہد
وہی اِس سانحے سے بے خبر کیوں لگ رہا ہے

مجھے معلوم ہے یہ خون کے چھینٹے ہیں پرویز
مگر لکھا ہوا کچھ خاک پر کیوں لگ رہا ہے

(پرویز اختر)
 
Top