میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
خاکِ ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا
اُس سرے دل کی خرابی ہوئی اے عشق دریغ
تُو نے کس خانہء مطبوع کو ویران کیا
ضبط تھا جب تئیں چاہت نہ ہوئی تھی ظاہر
اشک نے بہہ کے مرے چہرے پہ طوفان کیا
انتہا شوق کی دل کے جو صبا نے پوچھی
اِک کفِ خاک کوئی اُن نے پریشان کیا...
کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
اب تو جھونکے سے لرز اٹھتا ہوں
نشّۂ خوابِ گراں تھا پہلے
اب تو منزل بھی ہے خود گرمِ سفر
ہر قدم سنگِ نشاں تھا پہلے
سفرِ شوق کے فرسنگ نہ پوچھ
وقت بے قیدِ مکاں تھا پہلے
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے
یوں نہ گھبرائے ہوئے...
غزل بشکریہ گریس فل
ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھئے کیا ہو
پھر دیکھ لیا اس نے ادھر دیکھئے کیا ہو
دل جب سے لگایا ہے کہیں جی نہیں لگتا
کس طرح سے ہوتی ہے بسر دیکھئے کیا ہو
جو کہنے کی باتیں ہیں وہ سب میں نے کہی ہیں
ان کو مرے کہنے کا اثر دیکھئے کیا ہو
اب کے تو بمشکل دلِ مضطر کو سنبھالا
اندیشہ ہے یہ...
انتساب
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کِرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں...
شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو
نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو
عشق رُسوا ہو چلا، بے کیف سا، بے زار سا
آج اُس کی نرگسِ غمّاز کی...
مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے
ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
ایک ہی طولِ المناکی ہے
ایک ہی رُوح جو بے حال ہے زندانوں میں
ایک ہی قید تمنا کی ہے
عہدِ رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں
اور کچھ واہمے آئندہ کے
پھر بھی اندیشہ وہ آئنہ ہے جس میں گویا
مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو...
ویب کی دنیا میں پہلی بار یہ نظم پیش کی جا رہی ہے۔
حسن کوزہ گر – 4
جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد
اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں
مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں
کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!
(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر ۔۔۔ اِک نئے شہر میں ۔۔۔۔
اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا...
غزل
رات کی سانس ہو گئی بھاری
اِک ستارے کی ہے نموداری
بادباں کشتیوں کے کھُلتے ہیں
ہورہی ہے سفر کی تیّاری
رنگ پھیلے ہوئے ہیں آنکھوں میں
خواب میں کررہا تھا گُل کاری
کس تمنّا کا یہ تماشا ہے
دیکھ اے محو ِ آئنہ داری
بوجھ دل پر نہیں ہے کوئی بھی
ہاں مگر یاد کی گراں باری
ایک پتّا جو شاخ سے ٹوٹا...
بیس روپے کا کھانا تین روپے میں۔ آپ بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈالیے۔
پروین سعید صاحب کا رابطہ نمبر : 9212136-0300
وسعت اللہ کی رپورٹ بشکریہ بی بی سی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2011/10/111019_food_ghar_gel_rh.shtml
تنگ آیا ہوں یا خدا توبہ
دل کا کہنا کروں میں یا توبہ
دل میں خواہش ہے ظاہرا، توبہ
دل کا کہنا کروں میں یا توبہ
مجھ سے اور الفتِ بتاں چھوٹے
ایسی باتوں سے ناصحا توبہ
توبہ توبہ شراب دے ساقی
اب میں توبہ سے کرچکا توبہ
تُو وہ بُت ہے کہ دیکھتے ہی تجھے
لوگ کہتے ہیں، یا خدا توبہ
تجھ سے میں عہد...
عرفان سرور صاحب ابھی کچھ دیر پہلے اس فورم کے ممبر بنے ہیں لیکن ان کا مسئلہ ہے کہ وہ کچھ بھی پوسٹ نہیں کر پا رہے۔ منتظمین سے گزارش ہے کہ ان کا مسئلہ حل کیا جائے۔ ان کے پروفائل کا لنک یہ رہا۔
عرفان سرور پروفائل
جب کبھی یادوں کا دروازہ کھلا آخرِ شب
کوئی در آیا بااندازِ ہوا آخرِ شب
ھم پشیمان ادھر اور ادھر وہ نادم
شام کا بھولا ھوا آھی گیا آخرِ شب
دل کے آنگن میں بصدِ ناز تھا وہ محوِ خرام
پھول ھی پھول تھا نقشِ کفِ پا آخرِ شب
کر سکا پیش نہ عریانی کا جب کوئی جواز
آ گیا اوڑھ کے مریم کی رِدا آخرِ شب...
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
جو نفس تھا خارِگلو بنا، جو اٹھے تو ہاتھ لہو ہوئے
وہ نشاطِ آہ سحر گئ وہ وقارِ دستِ دعا گیا
نہ وہ رنگ فصلِ بہار کا، نہ روش وہ ابرِ بہار کی
جس ادا سے یار تھے آشنا وہ مزاجِ بادِ صبا گیا
جو طلب پہ...
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری...
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
کس نظر سے آپ نے دیکھا دلِ مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے
جُز زمینِ کوئے جاناں کچھ نہیں پیشِ نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا...
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار...
آگ کے پاس
پیرِ واماندہ کوئی
کوٹ پہ محنت کی سیاہی کے نشاں
نوجوان بیٹے کی گردن کی چمک دیکھتا ہوں
(اِک رقابت کی سیاہ لہر بہت تیز
مرے سینۂ سوزاں سے گزر جاتی ہے)
جس طرح طاق پہ رکھے ہوئے گلداں کی
مس و سیم کے کاسوں کی چمک!
اور گلو الجھے ہوئے تاروں سے بھر جاتا ہے
کوئلے آگ میں جلتے ہوئے
کن یادوں کی...
شہرِ وجود اور مزار
یہ مزار،
سجدہ گزار جس پہ رہے ہیں ہم
یہ مزارِ تار۔۔۔۔ خبر نہیں
کسی صبحِ نو کا جلال ہے
کہ ہے رات کوئی دبی ہوئی؟
کسی آئنے کو سزا ملی، جو ازل سے
عقدۂ نا کشا کا شکار تھا؟
کسی قہقہے کا مآل ہے
جو دوامِ ذات کی آرزو میں نزاز تھا؟
یہ مزار خیرہ نگہ سہی،
یہ مزار، مہر بلب...