مومن ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم ۔ مومن

فرخ منظور

لائبریرین
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

ہم سے نہ بولو تم، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم

بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم

اس کُو میں جا مریں گے مدد اے ہجومِ شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم

صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم

بے روئے مثلِ ابر نہ نکلا غبارِ دل
کہتے تھے ان کو برقِ تبسم ہنسی سے ہم

ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خارِ راہِ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم

کیا گُل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گُل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھے
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم

ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم

وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دمِ بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشمِ پری سے ہم

کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم

لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

(حکیم مومن خان مومن)
 

dehelvi

محفلین
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

نہایت دلگیر کلام ہے۔ پیش کرنے کا شکریہ۔
 

فاتح

لائبریرین
آج ایک شعر کے لیے گوگل کیا جو بچپن میں کبھی پڑھا تھا اور اب تک ذہن میں اٹکا ہوا تھا اور نتائج میں یہ دھاگا سامنے آ گیا۔ وہ شعر یہ تھا:
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
یہ خوبصورت غزل بطور انتخاب شیئر کرنے پر بہت شکریہ فرخ صاحب۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
آج ایک شعر کے لیے گوگل کیا جو بچپن میں کبھی پڑھا تھا اور اب تک ذہن میں اٹکا ہوا تھا اور نتائج میں یہ دھاگا سامنے آ گیا۔ وہ شعر یہ تھا:
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
یہ خوبصورت غزل بطور انتخاب شیئر کرنے پر بہت شکریہ فرخ صاحب۔

غزل آپ کے کام آئی میری محنت وصول ہوئی قبلہ ! :)
 

باباجی

محفلین
ٹھانی تھی دل میں اب نا ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم

ہم سے نہ بولو تم، اِسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجئے پُوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم

کیا گُل کھِلے گا دیکھئے، ہے فصلِ گُل تو دُور
اور سُوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا؟
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
 

مزمل حسین

محفلین
بہت خوب

کیا گُل کھِلے گا دیکھیے، ہے فصلِ گُل تو دُور
اور سُوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
یہ شعر مجھے اس لیے بھی پسند ہے کہ اردو شاعری سے باقاعدہ تعارف کا باب میرے لیے یہیں سے وا ہوا تھا
 
Top