ناصر کاظمی کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے ۔ ناصر کاظمی

فرخ منظور

لائبریرین
کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے

اب تو جھونکے سے لرز اٹھتا ہوں
نشّۂ خوابِ گراں تھا پہلے

اب تو منزل بھی ہے خود گرمِ سفر
ہر قدم سنگِ نشاں تھا پہلے

سفرِ شوق کے فرسنگ نہ پوچھ
وقت بے قیدِ مکاں تھا پہلے

یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے

یوں نہ گھبرائے ہوئے پھرتے تھے
دل عجب کنجِ اماں تھا پہلے

اب بھی تو پاس نہیں ہے لیکن
اس قدر دور کہاں تھا پہلے

ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں
اُس طرف چشمہ رواں تھا پہلے

اب وہ دریا، نہ وہ بستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے

ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے

اُڑ گئے شاخ سے یہ کہہ کے طیور
سرو ایک شوخ جواں تھا پہلے

کیا سے کیا ہو گئی دنیا پیارے
تو وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے

ہم نے آباد کیا ملکِ سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے

ہم نے بخشی ہے خموشی کو زباں
درد مجبورِ فغاں تھا پہلے

ہم نے ایجاد کیا تیشۂ عشق
شعلہ پتھّر میں نہاں تھا پہلے

ہم نے روشن کیا معمورۂ غم
ورنہ ہر سمت دھواں تھا پہلے

ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار
عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے

غم نے پھر دل کو جگایا ناصر
خانہ برباد کہاں تھا پہلے

(ناصر کاظمی)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے

لاجواب انتخاب۔ بہت شکریہ سخنور (کیا میں آپ کو آپ کے پرانے نک سے مخاطب کر سکتی ہوں؟)
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے

لاجواب انتخاب۔ بہت شکریہ سخنور (کیا میں آپ کو آپ کے پرانے نک سے مخاطب کر سکتی ہوں؟)

بہت شکریہ فرحت ! آپ بالکل مخاطب کر سکتی ہیں۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھلا کہ مجھے تو خود یہ نک پسند تھا ۔ :)
 
Top