ٹائپنگ مکمل سرِ وادیِ سینا از فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
انتساب

آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کِرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب اللہ فی الارض،
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں

ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گُل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھاگئے ہیں
ان بیاہتاؤ ں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں٭ اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو

پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحابِ طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے

ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
(ناتمام)

٭ کٹڑی۔ کٹڑے کی تصغیر، پنجابی میں ملحقہ مکانوں کے احاطے کو کہتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
لہو کا سراغ​
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہء جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پہ رقم ھو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا​
کراچی، جنوری 1965ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
زنداں زنداں شورِ انالحق، محفل محفل قلقلِ مے
خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی لہر
دامن دامن رُت پھولوں کی، آنچل آنچل اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے، ماتم شہر بہ شہر

کراچی، جنوری 1965ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیدہء تر پہ وہاں کون نظر کرتا ہے
کاسہء چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب اُن کے حضور
دست و کشکول نہیں کاسہء سر لے کے چلو

کراچی، جنوری 1965ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہاں سے شہر کو دیکھو

یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ ؐمخلصی کی سبیل

جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال
کوئی چھنک، کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی

یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں
نہ کوئی صاحبِ تمکیں، نہ کوئی والیِ ہوش
ہر ایک مردِ جواں مجرمِ رسن بہ گلو
ہر اِک حسینہء رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش

جو سائے دُور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں
نہ جانے محفلِ غم ہے کہ بزمِ جام و سبُو
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہے
یہاں سے کچھ نہیں کھُلتا یہ پھول ہیں کہ لہو

کراچی، مارچ 1965ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ

سایہء چشم میں‌حیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخیء لب میں‌ پریشاں تری آواز کا رنگ

بے پئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشہء مے میں‌ ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ

چنگ و نَے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لےَ بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ

اک سخن اور کہ پھر رنگِ تکلم تیرا
حرفِ سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ

کراچی، 1965ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
غم نہ کر، غم نہ کر

درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا،
غم نہ کر، غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر
ابر کھُل جائے گا، رات ڈھل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
رُت بدل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر

جون 1965ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
بَلیک آؤٹ

جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا
کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں
تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری
اس طرح ہے کہ ہر اِک رگ میں اُتر آیا ہے
موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا
تیرا ارمان، تری یاد لیے جان مری
جانے کس موج میں ٖغلطاں ہے کہاں دل میرا
ایک پل ٹھہرو کہ اُس پار کسی دنیا سے
برق آئے مری جانب، یدِ بیضا لے کر
اور مری آنکھوں کے گُم گشتہ گہر
جامِ ظلمت سے سیہ مست
نئی آنکھوں کے شب تاب گُہر
لوٹا دے
ایک پل ٹھہرو کہ دریا کا کہیں پاٹ لگے
اور نیا دل میرا
زہر میں دھُل کے، فنا ہو کے
کسی گھاٹ لگے
پھر پئے نذر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں
حسن کی مدح کروں، شوق کا مضمون لکھوں

ستمبر 1965ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

کس حرف پہ تو نے گوشہء لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا

سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لےَ ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا

بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اِس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر نظارہء بامِ ناز کیا

جس خاک میں مل کر خاک ہوئے، وہ سرمہء چشمِ خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خوں چھڑکا، ہمرنگِ گلِ طناز کیا

لو وصل کی ساعت آپہنچی، پھر حکمِ حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے، اور سینے کا در باز کیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
سپاہی کا مرثیہ

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال،
اب جاگو میرے لال
تمری سیج سجاون کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
نیلے شال دو شالے لے کر
جن میں اِن دُکھیَن اکھیَن نے
ڈھیر کیے ہیں اتنے موتی
اتنے موتی جن کی جیوتی
دان سے تمرا
جگ جگ لاگا
نام چمکنے
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
گھر گھر بکھرا بھور کا کندن
گھور اندھیرا اپنا آنگن
جانے کب سے راہ تکے ہیں
بالی دلہنیا ، بانکے ویِرن
سونا تمرا راج پڑا ہے
دیکھو کتنا کاج پڑا ہے
بیری بیراجے راج سنگھاسن
تم ماٹی میں لال
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
ہٹ نہ کرو ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال

اکتوبر 1965ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک شہرِ آشوب کا آغاز

اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے
اب حلقہء مے طائفہء بے طلباں ہے
گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے
پیوندِ رہِ کوچہء زر چشمِ غزالاں
پابوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے
یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیشِ ہوس تیغ بکف درپئے جاں ہے
اب صاحبِ انصاف ہے خود طالبِ انصاف
مُہر اُس کی ہے میزان بہ دستِ دگراں ہے
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

فروری، 1966ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
پھر وضعِ احتیاط سے دھندلا گئی نظر
پھر ضبطِ آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا


1966ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے

وہ نظر بہم نہ پہنچی کہ محیطِ حسن کرتے
تری دید کے وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے

وہی چشمہء بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے

ترا لطف وجہِ تسکیں، نہ قرار شرحِ غم سے
کہ ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ پہنچے

کوئی یار جاں سے گزرا، کوئی ہوش سے نہ گزرا
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے

چلو فیض دل جلائیں کریں پھر سے عرضِ جاناں
وہ سخن جو لب تک آئے پہ سوال تک نہ پہنچے

1966ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
سوچنے دو

( آندرے وزنیسن سکی کے نام)

اک ذرا سوچنے دو
اس خیاباں میں
جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں
کون سی شاخ میں پھول آئے تھے سب سے پہلے
کون بے رنگ ہوئی رنگ و تعب سے پہلے
اور اب سے پہلے
کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں
خون کا قحط پرا
گُل کی شہ رگ پہ کڑا
وقت پڑا
سوچنے دو

اک ذرا سوچنے دو
یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں
اس میں کس وقت کہاں
آگ لگی تھی پہلے
اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول
زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کماں
کس جگہ جوت جگی تھی پہلے
سوچنے دو

ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آ نکلتا ہے کبھی رات بِتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو

ماسکو
مارچ 1967 ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
غزل
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے

صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ میکشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے

نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تودل میں کبھو کی ہے

کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے

نہیں ‌خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے


1967ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
سرِ وادیِ سینا
(عرب اسرائیل جنگ کے بعد)

پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہء رخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
اے دیدہء بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتلِ جاں چارہِ گرِ کلفتِ غم ہے
گلزارِ ارم پرتوِ صحرائے عدم ہے
پندارِ جنوں
حوصلہء راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا،اے دیدہء بینا
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسمِ ستم حکمت خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
 

فرخ منظور

لائبریرین
دُعا

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہر امروز میں شیرینیِ فردا بھردے
وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے

جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے

جن کا دیں پیرویِ کذب وریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

عشق کا سرِ نہاں جانِ تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے


یومِ آزادی، 14 اگست 1967ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
دلدار دیکھنا

طوفاں بہ دل ہے ہر کوئی دلدار دیکھنا
گُل ہو نہ جائے مشعلِ رخسار دیکھنا
آتش بہ جاں ہے ہر کوئی سرکار دیکھنا
لو دے اٹھے نہ طرہء طرار دیکھنا
جذبِ مسافرانِ رہِ یار دیکھنا
سر دیکھنا، نہ سنگ، نہ دیوار دیکھنا
کوئے جفا میں قحطِ خریدار دیکھنا
ہم آ گئے تو گرمیِ بازار دیکھنا
اُس دلنواز شہر کے اطوار دیکھنا
بے التفات بولنا، بیزار دیکھنا
خالی ہیں گرچہ مسند و منبر، نگوں ہے خلق
رعبِ قبا و ہیبتِ دستار دیکھنا
جب تک نصیب تھا ترا دیدار دیکھنا
جس سمت دیکھنا، گل و گلزار دیکھنا
پھر ہم تمیزِ روز و مہ و سال کر سکیں
اے یادِ یار پھر اِدھر اِک بار دیکھنا

1967ء
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے​
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا​
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا​
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا​
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر​
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا​
میرے ویرانہء تن میں گویا​
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کُھل کر​
سلسلہ وار پتا دینے لگیں​
رخصتِ قافلہء شوق کی تیاری کا​
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں​
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا​
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا​
ہم نے چاہا بھی ، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا​
1967ء​
 

فرخ منظور

لائبریرین
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

1968ء
 
Top