دن کی اِک اِک بوند گراں ہے، اِک اِک جرعہء شب نایاب
شام و سحر کے پیمانے میں جو کچھ ہے، ڈر ڈر کے پیو
آہستہ آہستہ برتو اِن گنتی کی سانسوں کو
دل کے ہات میں شیشہء جاں ہے، قطرہ قطرہ کر کے پیو
(مصطفیٰ زیدی)
دمبدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
موسمِ گُل میں ہم اِک دھوم مچا دیتے ہیں
جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر
دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں کیا دیتے ہیں
ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک
دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں
نزع میں ہوں مری بالیں سے نہ اٹھیے للہ
آپ کس وقت میں بندے کو دغا...
تنہا
میں وہی قطرۂ بے بحر وہی دشت نورد
اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے صحرا کا طلسم
اپنے سینے میں چھپائے ہوئے سیلاب کا درد
ٹوٹ کر رشتۂ تسبیح سے آ نکلا ہوں
دل کی دھڑکن میں برستے ہوئے لمحوں کا خروش
میری پلکوں پہ بگولوں کی اڑائی ہوئی گرد
لاکھ لہروں سے اٹھا ہے مری فطرت کا خمیر
لاکھ قلزم مرے سینے میں...
شہیدِ ساز
(منٹو کی یاد میں)
کیا کچھ نہ دل پہ بیت گئی ہے نہ پوچھیے
جب یہ کہا کسی نے کہ منٹو گزر گیا
یوں دل دھڑک کے ہو گیا خاموش یک بیک
جیسے خود اپنے گھر کا کوئی فرد مر گیا
اس پر سکوت لمحۂ سوزاں سے آج تک
جب بھی قلم اٹھایا ہے آنسو نکل گئے
اس کا خیال آتے ہی یوں چیخ اٹھی ہے روح
گویا دل و دماغ پہ...
دکھائے رندوں کو نیرنگیِ شراب گھٹا
پئے گزک کرے طاؤس کو کباب گھٹا
گہ آئینہ ہوا، گہ دیدۂ پر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
نہیں ہے حاجیوں کو مے کشی کی کیفیت
گئی حرم کو تو ہو گی بہت خراب گھٹا
سفر ہے باغِ جہاں گرزِ...
غزل
مینوں تیرا شباب لے بیٹھا
رنگ گورا گلاب لے بیٹھا
دل دا ڈر سی کتے نہ لے بیٹھے
لے ہی بیٹھا جناب لے بیٹھا
ویلھ جد وی ملی ہے فرضاںتوں
تیرے مکھ دی کتاب لے بیٹھا
کنی بیتی تے کنی باقی ہے
مینوں ایہو حساب لے بیٹھا
مینوں جد وی تسیں ہو یاد آئے
دن دیہاڑے شراب لے بیٹھا
شو نوں اک غم تے...
غزل
کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں
موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ایسی لذّت نہ...
نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
تیری ہی زلفِ ناز کا اب تک اسیر ہوں
یعنی کسی کے دامِ میں آیا نہیں ہنوز
یادش بخیر جس پہ کبھی تھی تری نظر
وہ دل کسی سے میں نے لگایا نہیں ہنوز
محرابِ جاں میں تونے جلایا تھا خود جسے
سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز
بے ہوش...
ہم آہوانِ شب کا بھرم کھولتے رہے
میزان ِ دلبری پہ انہیں تولتے رہے
عکسِ جمالِ یار بھی کیا تھا، کہ دیر تک
آئینے قُمریوں کی طرح بولتے رہے
کل شب ہمارے ہاتھ میں جب تک سُبو رہا
اسرار کتمِ راز میں پر تولتے رہے
کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف
جیسے کسی کا بندِ قبا کھولتے رہے
ہر شب شبِ سیاہ تھی...
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا‘ مرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصل...
میں ترا ہجر کیسے بنوں
اے مرے خوش نما ،اے مری نا رسائی
مرے ہجرِ نا مختتم!
مجھ کو یہ تو بتا
کیا مری آنکھ میں ایک بھی ایسا آنسو نہیں
جو تری چشم میں کوئی خواب ِتمنا جگا دے
ترے دل کا رخ پھیر دے
میری مرجھائی آواز میں کیا نہیں ہے
کہیں ایک بھی لفظ ایسا
جو ہونٹوں پہ تیرے ، کوئی ایسا نغمہ سجا دے
کہ جس میں...
رسوائی نہیں کچھ بھی تو شہرت بھی نہیں کچھ
دیکھو تو یہاں ذلّت و عزت بھی نہیں کچھ
ہر چند ہوے تنگ ہم اس شورشِ دل سے
پر نام سے تیرے ہمیں وحشت بھی نہیں کچھ
ہر چیز یہاں پر ہے فراموشی کی زد پر
تم بھول گئے ہم کو تو حیرت بھی نہیں کچھ
کچھ رات کا جادو بھی لیے پھرتا ہے ہر سو
اور ہم کو بہت سونے کی عادت...
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے...
تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا
پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا
گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا
دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہو
جو اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا
خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا...
نقش ہائے گزشتگاں ہیں ہم
محوِ حیرت ہیں اب جہاں ہیں ہم
ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم
اپنی نظروں سے خود نہاں ہیں ہم
صبر و تاب و تواں کے جانے سے
ہائے گُم کردہ کارواں ہیں ہم
دل کی لے کر خبر بھی دل کی نہ لی
پھر کہو گے کہ دل ستاں ہیں ہم
آ کے جلدی کرو مسیحائی
اب کوئی دم کے میہماں ہیں ہم
آئینہ...
کوئی آہٹ نہیں آتی سرِ دشتِ گُماں جاناں
غُبارِ راہ کو تکتے ہوئیں آنکھیں دھواں جاناں
چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں جاناں
نجانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں جاناں
مجھے یہ وہم لاحق تھا، در و دالان ہیں میرے
مجھے یہ خوش گمانی تھی، مرا ہے یہ مکاں جاناں
تمہاری گفتگو سنتی رہی دنیا، پہ دم بھر میں
ہماری...