دریچہ
آخری سانس لے رہی ہے رات
دن ابھی ٹوٹ کے دو ٹکڑوں میں آ نکلے گا
نامکمل کئی وعدوں کی طرح
دستِ افلاک سے لٹکے ہوئے دھندلے تارے
منتظر آنکھوں میں آ گرتے ہیں قطرہ قطرہ
گونج اُٹھتی ہے کہیں رنج میں ڈوبی آواز
صبح کے راز عیاں کرتا یہ پہلا پنچھی
جس کے پر میری نگاہوں کی طنابوں سے بندھے
کھینچ دیتا ہے...