مرگِ آذر (منٹو کی یاد میں) از نور بجنوری

فرخ منظور

لائبریرین
مرگِ آذر
(منٹو کی یاد میں)
از نور بجنوری​
مے کشو! بادۂ احمر کا چھلکتا ہوا جام
لبِ ساقی کے چناروں کی طرف لوَٹ گیا
آہ! وہ انجمِ افتادہ سرِ جادۂ غم
ظلمتیں لے کے ستاروں کی طرف لوٹ گیا
خارزاروں پہ چھڑک کر دلِ سرکش کا لہو
آخرِ کار بہاروں کی طرف لوٹ گیا
مدھ بھری سانولی راتوں کے رسیلے سپنے
کس کے بے خواب شبستاں کے لئے مہکیں گے
جھلملاتے ہوئے معصوم گناہوں کے چراغ
کس کے افکار میں شعلوں کی طرح دہکیں گے
مرگِ آذر ہے خداوند! شکستِ تخلیق
روح جاگے گی کہاں، جسم کہاں چہکیں گے
 
Top