فیض نظم ۔ آج کی رات ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ ۔ نورجہاں کو ایک نجی محفل میں بغیر سازندوں کے گاتے سنیے۔

آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ فردا اتار دے دل سے
عمر رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
(فیض احمد فیض)
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ واہ چہ خوب منتخب کردن۔۔۔ واہ ۔۔ آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ، سبحان اللہ ، کیا کہنے فرخ بھائی بہت عمدہ انتخاب ہے ۔۔ ملکہ ترنم کی آواز نے تو جیسے جادو کردیا ہے ۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ مزا آگیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
سبحان اللہ واہ چہ خوب منتخب کردن۔۔۔ واہ ۔۔ آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ، سبحان اللہ ، کیا کہنے فرخ بھائی بہت عمدہ انتخاب ہے ۔۔ ملکہ ترنم کی آواز نے تو جیسے جادو کردیا ہے ۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ مزا آگیا

بہت شکریہ مغزل بھائی!
 
Top